ظاہری حسن عارضی ہیں
ایک بادشاہ کے تمام بیٹے ماں سوائے ایک کے سب حسن و جمال کے بے مثل تھے اور اپنے حسن پر نازاں تھے بادشاہ کا جو بیٹا بدصورت تھا اس کا قد بھی چھوٹا تھا۔
ایک دن بادشاہ نے اپنے اس چھوٹے قد کے بیٹے کو نہایت حقارت کی نگاہ سے دیکھا بیٹا اپنی دانائی اور عقل کی بنا پر سمجھ گیا کہ باپ نے اسے حقارت سے دیکھا ہے اس نے باپ سے پوچھا کہ بابا جان گستاخی کی معافی چاہتا ہوں مگر چھوٹے قد والا بد صورت اگر عقلمند ہو تو وہ حسن و جمال اور دراز قد والے سے بہتر ہوتا ہے۔
کیا یہ درست نہیں کی کبھی چھوٹی شے کی قیمت بڑی سے بہتر ہوتی ہے جیسے بکری چھوٹی ہے مگر وہ پاک ہے اور ہاتھی بڑا ہوتا ہے مگر پھر بھی مردار و ناپاک ہےکوہ طور زمین کے دیگر پہاڑوں سے چھوٹا ہے مگر اس کی قدر و قیمت اللہ عزوجل کے نزدیک دیگر بڑے اور قوی پہاڑوں سے زیادہ ہے۔
اور کیا آپ نے سنا نہیں کہ ایک کمزور مگر عقل مند شخص نے ایک موٹے بے وقوف شخص سے کیا کہا اس نے کہا کہ عربی گھوڑا اگرچہ کمزور ہی ہو مگر پھر بھی تمام گدھوں سے زیادہ شان و مرتبہ والا ہوتا ہے۔بادشاہ نے اس کی باتیں سنی تو ہنس پڑا اور خوش ہو گیا جب کہ دیگر بھائیوں نے اس کی باتوں سے صدمہ پہنچا اس لیے کہتے ہیں کہ جب تک بندہ بولتا نہیں اس کے عیب اور خوبیاں پوشیدہ رہتی ہیں اور ہر جھاڑی کے متعلق یہ خیال کرنا کہ شاید وہ خالی ہو حالانکہ اس میں خطرناک جانور بھی چھپا ہو سکتا ہے۔
پھر اس بادشاہ پر اس کے کسی دشمن نے چڑھائی کر دی پھر جو شخص سب سے پہلے میدان جنگ میں اترا وہ اسی بادشاہ کا بدصورت اور چھوٹے قد کا بیٹا تھا وہ دشمن کو للکارتے ہوئے بولا کہ میں لڑائی کے موقع پر پیٹھے پھیر کر بھاگنے والا نہیں ہوں تم مجھے لڑائی کے وقت خاک و خون میں لتھڑا دیکھو گے کیونکہ لڑائی کے دن جو لڑتا ہے وہ اپنے خون سے کھیلتا ہے اور لڑائی کے وقت میدان جنگ سے بھاگنے والا پورے لشکر کے خون کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
یہ کہہ کر وہ دشمنوں پر جھپٹ پڑا اور ان کے کئی سرماؤں کو قتل کر کے اپنے باپ کے پاس واپس لوٹا اور باپ کے قدم چوم کر عرض کرنے لگا کہ ابا جان آپ نے میرے کمزور جسم کو میری کمزوری سمجھا اور موٹاپے کو حسن خیال کیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پتلی کمر والا گھوڑا لڑائی میں جو کام کرتا ہے وہ کام موٹا تازہ بیل بھی نہیں کر سکتا۔
دشمن کے سپاہی تعداد میں زیادہ تھے جبکہ اس بادشاہ کا لشکر تعداد میں کم تھا اس کے لشکر نے دشمنوں کی زیادہ تعداد کی وجہ سے بھاگنے کی کوشش کی تو چھوٹے قد اور بدصورت شہزادے نے نعرہ بلند کیا۔
اور کہا کہ اے بہادرو! عورتوں کی طرح بھاگنا مردوں کا کام نہیں تم مرد بنو اور اپنے دشمن کے سامنے ڈٹ جاؤ اور دشمن کو مارو یا خود مر جاؤ اس کا یہ کہنا تھا کہ اس کے لشکر کا حوصلہ بڑھ گیا اور اس نے ایک ہی حملے میں اپنے دشمن کے ہوش اڑا دیے اور فتح ان کا مقدر بن گئی۔
بادشاہ نے اپنے اس بیٹے کا منہ چوما اور اس کی آنکھوں کو بوسہ دیا اور اس کے بغل گیر ہوا اور پھر اس کی توجہ اپنے اس بیٹے پر زیادہ ہو گئی یہاں تک کہ اسے اپنا جانشین مقرر کر دیا اب اس کے بھائیوں نے اس سے حسد کرنا شروع کر دیا۔
اور اس کو کھانے میں زہر دے کر اسے مارنا چاہا جب کھانا اس کے سامنے آیا تو اس کی بہن جو اپنے دوسرے بھائیوں کو زہر ملاتا ہوا دیکھ چکی تھی اس نے کھڑکی سے جھانک کر زور سے کھڑکی کو پیٹا اور وہ بد صورت شہزادہ اپنی ذہانت کی وجہ سے سمجھ گیا کہ کھانے میں کوئی چیز ملائی گئی ہے اس نے وہ کھانا نہیں کھایا اور کہا کہ کیا یہ بہتر ہے کہ عقل مند مر جائیں اور بے وقوف ان کی جگہ پر آجائیں۔
ہما اگرچہ ایک پرندہ ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کا سایہ جس بھی سر پر پڑ جائے وہ بادشاہ بن جاتا ہے وہ اگر اس دنیا سے ختم بھی ہو جائے تو پھر بھی الو جو کی نحوست کی علامت کے سائے میں بھی آنا کوئی پسند نہیں کرے گا۔بادشاہ کو جب اس بات کا علم ہوا تو اس نے اپنے تمام شر پسند بیٹوں کو بلایا اور ان کو سزا دی اور اپنے ملک کو اپنے تمام بیٹوں میں تقسیم کر کے اس فتنے کا صد باب کیا تاکہ یہ فتنہ ختم ہو اور یوں یہ جھگڑا ختم ہوا۔
مثل مشہور ہے کہ دس فقیر ایک کمبل میں سما سکتے ہیں لیکن دو بادشاہ ایک ملک میں ہرگز نہیں سما سکتے اللہ عزوجل کا نیک بندہ آگر ادھی روٹی کھا لے تو باقی آدھی مسکینوں میں تقسیم کر دیتا ہے لیکن بادشاہ اگر ایک ملک پر قبضہ کر لے تو اسے دوسرے ملک پر قبضہ کرنے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے اسی لیے حضرت شیخ سعدی فرماتے ہیں ظاہری حسن عارضی ہے۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں ایک بادشاہ کے بد صورت بیٹے کے ذکر کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بادشاہ اول اسے نالہ تھا پھر جب اس نے اس کی دانائی کی باتیں سنی تو اس کا قائل ہو گیا.
مگر اس کے دیگر بھائی اس سے حسد کرتے رہے پھر جب وہ اس ملک پر دوسرے ملک کے فوجیوں نے حملہ کیا تو سب سے پہلے وہی بدصورت شہزادہ میدان جنگ میں اترا۔
اور اس نے ان فوجیوں کو شکست فاش سے دوچار کیا پھر بادشاہ نے جب اس کو اپنا جانشین مقرر کیا تو اس کے بھائیوں نے حسد کی بنا پر اسے قتل کا ارادہ کیا مگر وہ اپنے اس ارادے میں ناکام رہے بس یاد رکھو کہ ظاہری حسن پر فخر کرنا جاہلوں کا شیوہ ہے اور یہ عارضی ہے کسی کو حقیر نہ جانو کہ وہ بھی اللہ عزوجل کی مخلوق ہے ظاہری حسن عارضی ہے