yaare gaar

یار غار

مکہ معظمہ میں جب مسلمانوں کو کفار کی طرف سے بہت ایزا دی جانے لگی تو اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ معظمہ سے ہجرت فرما جانے کا ازن دے دیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا ذکر صدیق اکبر سے فرمایا اور فرمایا کہ میں عنقریب یہاں سے ہجرت کر جاؤں گا

صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ اپ پر قربان میں بھی حضور کے ساتھ ہی چلوں گا

چنانچہ شبیر ہجرت جب کفار مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دینے کی نیت سے حضور کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سورہ یاسین تلاوت فرماتے ہوئے اس محاصرہ سے سب کے سامنے گھر سے باہر تشریف لے ائے اور حضور کا باہر نکلنا کسی کو بھی نظر نہ ا سکا تو حضور گھر سے نکل کر سیدھے صدیق اکبر کے گھر تشریف لائے اور فرمایا اے ابوبکر مجھے ابھی اسی وقت ہجرت فرمانے پر مل چکا ہے اور میں مکہ چھوڑ کر جا رہا ہوں

صدیق اکبر نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ اپ پر قربان ہوں میں بھی ساتھ چلوں فرمایا چلو صدیق اکبر حضور سے حضور کی معیت کی اجازت پا کر فرد مسرت سے رونے لگے اور حضور کے ساتھ وہ لیے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم صدیق اکبر کو ہمراہ لے کر مکہ معظمہ سے چل دیے

صدیق اکبر کبھی حضور سے اگے اور کبھی پیچھے رہ کر چلتے حضور نے اس کی وجہ دریافت کی تو عرض کیا یا رسول اللہ میں چاہتا ہوں کہ دشمن تعقب کرتا ہوا اگے اپنے پیچھے سے ا جائے تو اس کا وار مجھ پر ہو اور حضور پر میں ہی قربان ہوں اور حضور کو کوئی تکلیف نہ پہنچے چلتے چلتے سور پہاڑ پر پہنچے اس پہاڑ میں ایک غار تھا جس کا نام غارق ہوا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غار میں تشریف فرما ہونے کا قصد فرمایا دو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ٹھہر جائیے پہلے مجھے اندر جانے دیجئے پرانا غار ہے پہلے میں اندر جاتا ہوں اور اسے صاف کرتا ہوں صاف کر لوں تو اپ اندر ا جائیے گا

یار غارچنانچہ پہلے اس غار میں سدیق اکبر گئے اور اسے صاف کرنے لگے اس غار میں کئی بلتھے صدیق اکبر ان بلوں کو اپنے کپڑے سے پھاڑ پھاڑ کر بند کرنے لگے صرف اس لیے کہ کوئی موزی جانور حضور کو تکلیف نہ پہنچائے اس غار میں ایک بہت بڑا سانپ رہتا تھا صدیق اکبر نے اس کا بل جو دیکھا تو کپڑا ختم ہونے کے باعث کپڑے سے تو اسے بند نہ کر سکے اور اپنی ایڑی اس میں رکھتی اپنی جان کی پرواہ نہ کی اور یہی سوچا کہ مجھے جو چاہے تکلیف پہنچے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہ پہنچے

اس بل پر ایڑی رکھنے کے بعد صدیق اکبر نے پھر حضور کو اندر بلا لیا اور حضور اندر تشریف لے ائے اور اپنا سر انور صدیق اکبر کی گود میں رکھ کر سو گئے وہ بل جس پر صدیق اکبر کی ایڑی تھی اس میں سے ایک زہریلے سانپ نے صدیق اکبر کو ڈس لیا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو تکلیف تو ہوئی مگر اپ اپنی جگہ سے حیلے تک نہیں تاکہ حضور کی نیند مبارک میں خلل نہ ائے

سانپ کے زہر کی تکلیف سے صدیق اکبر کے انسو نکل ائے اور چند انسو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر گرے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ابوبکر کیوں رو رہے ہو صدیق اکبر نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ اپ پر قربان ہوں مجھے سانپ نے ڈس دیا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت اپنا جواب دہن شریف لگا دیا تو صدیق اکبر کی ساری تکلیف دور ہو گئی

حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیق اکبر جب اس غار میں داخل ہوئے تو غار سے دور ایک درخت تھا حضور نے اس درخت کو حکم دیا تو وہ درخت اپنی جگہ سے چل کر غار کے منہ پر ا کر کھڑا ہو گیا یوں معلوم ہونے لگا کہ یہ درخت یہیں اگا ہوا ہے اور غار کا منہ اس درخت کی شاخوں سے بند ہو گیا اور اللہ نے اسی وقت ایک مکڑی کو بھیجا جس نے اس درخت کی شاخوں کے اندر جالا بنا دیا یہ سب سامان اس لیے تیار کیا گیا تاکہ کافر اگر حضور کا تعقب کرتے ہوئے وہاں تک ائیں تو وہ غار کے منہ کے اگے درخت اور اس کی شاخوں میں جالا بنا ہوا دیکھیں تو انہیں حضور کے اندر لے جانے کا شبہ بھی نہ گزرے

ادھر جب کافروں کو پتہ چلا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ابوبکر کی معیت میں مکہ سے چلے گئے تو بہت حیران ہوئے اور حضور کی تلاش کرنے لگے اور کچھ کھوجی حضور کا کھوج نکالنے کے لیے مقرر کر دیے

ان کھوج نکالنے والوں میں سے ایک شخص کھوج نکالتا ہوا غار تک ا پہنچا اور پھر کہنے لگا یہاں تک تو محمد اور ابوبکر ائے ہیں لیکن اس کے بعد پتہ نہیں چل رہا کہ دائیں گئے یا بائیں کافر وہاں جمع ہو گئے لیکن وہاں حیران کے حیران کھڑے رہے کچھ پتہ نہ چلے کہ یہاں سے اگے کدھر گئے ہیں صدیق اکبر نے جب کافروں کے قدم غار سے باہر دیکھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر میں اپ پریشان سے ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی فکر نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے

yaare gaarاتنے میں ان کافروں میں سے ایک کافر بولا ذرا اس غار کے اندر تو جا کر دیکھیے یہ سن کر دوسروں نے جواب دیا بے وقوف ہو غار کے منہ کے آگے درخت اگا ہوا ہے اور اس پر مکڑی کا جالا بھی بنا ہوا ہے اگر اندر کوئی گیا ہوتا تو یہ شاخیں اور ان کا جالہ ضرور ٹوٹ پھوٹ جاتا مگر یہ بات تو نظر نہیں اتی پھر کسی کے اندر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا

چنانچہ وہ مایوس ہو کر وہاں سے لوٹ گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اپنے اللہ کی حفاظت میں بالکل خیریت سے رہیں

قران کریم

سبق

قران پاک میں اس واقعے کا ضمن میں اذن یقول فرما کر اللہ تعالی نے صدیق اکبر کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی فرمایا ہے لہذا جو شخص صدیق اکبر کی صحابیت کا منکر ہے وہ کافر ہیں

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غم نہ کر اللہ ہمارے یعنی ہم دونوں کے ساتھ ہے یہ ظاہر فرما دیا کہ اللہ تعالی صدیق اکبر کے ساتھ ہے معلوم ہوا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو تخت خلافت پر متمکن ہوئے یہ اپ ہی کا حق تھا اور اپ غاصب و ظالم نہ تھے اس لیے کہ اللہ غاصب و ظالم کے ساتھ نہیں ہوتا پھر اگر کوئی ظالم اپ کو ظالم کہے تو اس نے گویا اپ کا انکار کر دیا

شب ہجرت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا صدیق اکبر کے گھر تشریف لے کر جانا انہیں اپنے ساتھ لے چلنا اور صدیق اکبر کا سب کچھ چھوڑ کر حضور کے ساتھ چل پڑنا بتاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صدیق اکبر اور صدیق اکبر کو حضور سے انتہائی محبت تھی

غار کے اندر حضور کو باہر ٹھہرا کر صدیق اکبر کا پہلے خود اندر جانا اور بلوں کو اپنے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر بند کرنا اور پھر ایک بل پر اپنی ایڑی رکھ دینا یہ بتاتا ہے کہ صدی کے اکبر کو مال و جان سے بھی حضور زیادہ پیارے تھے اور یہی کمال ایمان کی نشانی ہے جو سب سے زیادہ صدیق اکبر میں نظر اتی ہے

مقام ڈنگ پر حضور کا اپنا لعاب دہن شریف لگا کر شفا بخش دینا ثابت کرتا ہے کہ حضور کا لعاب دہن شریف بھی دفع البلا ہے

ارشاد مصطفی کی تکمیل کرتے ہوئے درخت کا اپنے مقام سے چل کر غار کے منہ پر ا جانا بتاتا ہے کہ ہمارے حضور کا حکم و تصرف کائنات کے ہر ذرے پر جاری ہے

کافروں کا غار کے منہ تک ا پہنچنا اور پھر وہاں سے مایوس ہوا نامراد لوٹنا بتاتا ہے کہ حق کے مقابلے میں ساری اس کی میں اور تدبیریں خاک میں مل جاتی ہیں

تیرہ سو سال کی عمر کا بادشاہ

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔