عمر بن الخطاب
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اللہ سے یہ دعا کی: اے اللہ! عمر بن خطاب کے وجود سے اسلام کو عزت دے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہو اور پھر قبول نہ ہو چنانچہ ادھر تو یہ دعا ہوئی اور ادھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کر دینے کے ارادے سے گھر سے نکلے راستے میں آپ کو ایک شخص نے مل کر پوچھا: کہ اے عمر! تم کہاں جاتے ہو؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے اس نے کہا بھلا اگر تم نے ایسا کیا تو بنی ہاشم سے کس طرح امن میں رہ سکتے ہو؟
اور پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو عمر تمہاری بہن فاطمہ اور تمہارے بہنوئی سعید بن زید دونوں کے دونوں مسلمان ہو چکے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس شخص کی یہ گفتگو سن کر غصہ میں تھرتھرا کر کانپنے لگے اور بولے: اچھا تو میں پہلے انہی دونوں کا کام تمام کرتا ہوں یہ کہہ کر آپ اپنی بہن کے گھر آئے اور تھوڑی دیر گلی میں کھڑے ہو کر اپنی بہن کی آواز کو سنا اور پھر دفعہ گھر کے اندر چلے گئے۔
اور بہن سے کہنے لگے: کہ یہ آواز کس کی تھی جو اس وقت میں نے تم دونوں سے سنی اس وقت حضرت عمر کی بہن کے گھر میں ایک شخص بیٹھے ان کے بہنوئی اور بہن کو سورہ طہ پڑھا رہے تھے انہوں نے جو ہی حضرت عمر کی اہٹ پائی اور عورت مکان کے ایک گوش میں چھپ گئے۔
جب حضرت عمر نے غضب کے لہجے میں یہ الفاظ کہے تو آپ کے بہنوئی سعید کہنے لگے عمر بھلا اگر ہم حق پر ہوں تو بھی آپ ہمیں برا سمجھیں گے اس پر حضرت عمر کو اور زیادہ غصہ آیا اور آپ نے اپنے بہنوئی کو زور سے دھکہ دیا اور دو چار زور زور سے گھوسے بیمار دیے آپ کی بہن فاطمہ اپنے شوہر کی یہ کیفیت دیکھ کر بڑی بے تابی سے اٹھیں اور بھائی کو خاوند سے علیحدہ کیا۔
مگر حضرت عمر نے انہیں بھی مار کر اپنے دل کا خوب غبار نکالا یہاں تک کہ ان کا چہرہ لہو لہان ہو گیا جب حضرت عمر ان دونوں سے علیحدہ ہوئے تو بہن سے کہا: اللہ مجھے وہ صحیفہ تو دکھاؤ جسے تم پڑھ رہی تھی فاطمہ نے کہا: بھائی اسے پاک لوگ چھو سکتے ہیں پہلے آپ پاک ہولیں حضرت عمر اٹھے اور بہن کی ہدایت کے مطابق وضو کیا: اور وضو کر کے اس صحیفہ کو ہاتھ میں لیا ۔اس میں قران کی ایت لکھی ہوئی تھی۔
کہ کلام الہی آپ پر اپنا اثر ڈال گیا اور آپ نے اسی وقت بچش میں نم فرمایا: مجھے فورا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو حضرت عمر کی گفتگو سن کر ان صحابی کو جو آپ کے بہن بہنوئی کو تعلیم دے رہے تھے اس میں اطمینان ہوا اور اندر سے نکل کر کہا: عمر تمہیں بشارت ہو گی میں نے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: کہ آپ جناب الہی میں یوں دعا کرتے ہیں۔
الہی عمر بن الخطاب کے وجود سے اسلام کو عزت دے
اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور حاضر ہونے کو چلے دروازے پر دیکھتے ہیں کہ حضرت حمزہ اور چند آدمی کھڑے ہیں ان لوگوں نے حضرت عمر کو دیکھا تو ڈر گئے اور حضرت عمر کی دہشت ان پر طاری ہو گئی حضرت حمزہ نے کہا: خدا تعالی اگر حضرت عمر کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اسے اسلام کی ہدایت کرے گا اور اگر خدا نے اس کے علاوہ کوئی دوسری بات چلی ہے تو عمر کو قتل کر ڈالنا ہم پر کوئی مشکل نہیں ہے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عمر کے آنے کی خبر پہنچی تو آپ باہر تشریف لائے اور ان کے کپڑے کو پھاڑ کر فرمایا: عمر کیا تم اب بھی باز نہ آؤ گے اور پھر آپ نے وہی دعا مانگی اور فرمایا: الہی عمر ابن الخطاب کے وجود سے اسلام کو عزت دے جو ہی حضرت کی زبان سے کلمات نکلے حضرت عمر بے ساختہ پکار اٹھے۔
اور کلمہ شہادت پڑھنے لگے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اعلان حق کو سنتے ہی موجودہ مسلمانوں نے ایسے زور سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا کہ تمام مسجد والوں نے سن لیا۔
(تاریخ الخلفا)
سبق
سارے صحابہ کرام علیہم الرضوان بہت بڑی شان اور بڑے رتبے کے مالک ہیں مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ ایک امتیازی شان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو اللہ سے مانگ کر لیا ہے اور ظاہر ہے کہ جو چیز خواہش و تمنا سے حاصل کی جائے وہ بڑی عزیز اور محبوب ہوتی ہے پھر جو لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خلاف ہوں وہ گویا مرضی مصطفی کے خلاف ہیں۔