تیرہ سو سال کی عمر کا بادشاہ
حضرت دانیال علیہ السلام ایک دن جنگل میں چلے جاتے تھے آپ کو ایک گنبد نظر آیا آواز آئی کہ اے دانیال! ادھر آ دانیال علیہ السلام اس گنبد کے پاس گئے معلوم ہوا کہ کسی مقبرہ کا گنبد ہے جب آپ مقبرے کے اندر تشریف لے گئے تو دیکھا بڑی عمدہ عمارت ہے اور عمارت کے بیچ ایک عالی شان تخت بچھا ہوا ہے اس پر ایک بڑی لاش تم ہی ہے پھر آواز آئی کہ اے دانیال! تخت کے اوپر آؤ آپ اوپر تشریف لے گئے۔
تو ایک لمبی چوڑی تلوار مردہ کے پہلو میں رکھی ہوئی نظر آئی اس پر یہ عبارت لکھی ہوئی نظر آئی کہ میں قوم عاد سے ایک بادشاہ ہوں خدا نے تیرا سو سال کی مجھے عمر عطا فرمائی 12 ہزار میں نے شادیاں کی 8 ہزار بیٹے ہوئے لا تعداد خزانے میرے پاس تھے اس قدر نعمتیں لے کر بھی میرے نفس نے خدا کا شکر نہ کیا بلکہ الٹا کفر کرنا شروع کیا اور خدائی کا دعوی کرنے لگا۔
خدا نے میری ہدایت کے لیے ایک پیغمبر کو بھیجا ہر چند انہوں نے مجھے سمجھایا مگر میں نے کچھ نہ سنا انجام انجام کار وہ پیغمبر مجھے بددعا دے کر چلے گئے حق تعالی نے مجھ پر اور میرے ملک پر قحط مسلط کر دیا جب میرے ملک میں کچھ پیدا نہ ہوا تب میں نے دوسرے ملکوں میں حکم بھیجا کہ ہر ایک قسم کا غلہ اور میوہ میرے ملک میں بھیجا جائے بم واجب میرے حکم کے ہر قسم کا غلہ اور میوہ میرے ملک میں آنے لگا۔
جس وقت وہ غلہ یا میوہ میرے شہر کی سرحد میں داخل ہوتا فورا مٹی بن جاتا ہے اور وہ ساری محنت بےکار جاتی اور کوئی دانہ مجھے نصیب نہ ہوتا اسی طرح سات دن گزر گئے میرے قلع سے سارے احالی موالی بیویاں بچے سب بھاگ گئے میں تنہا قلعے میں رہ گیا سوائے فاقہ کے میری کوئی غذا نہ تھی ایک دن میں نہایت مجبور ہو کر فاقہ کی تکلیف میں قلعہ کے دروازے پر آیا وہاں مجھے ایک شخص نظر آیا جس کے ہاتھ میں کچھ غلہ کے دانے تھے جن کو وہ کھاتا چلا جاتا تھا میں نے اس جانے والے سے کہا: کہ ایک بڑا برتن بھرا ہوا موتیوں کا مجھ سے لے لے اور یہ اناج کے دانے مجھے دے دے۔
مگر اس نے نہ سنا اور جلدی سے ان دانوں کو کھا کر میرے سامنے سے چلا گیا انجام یہ ہوا کہ اس فاقہ کی تکلیف سے میں مر گیا یہ میری سرگزشت ہے جو شخص میرا حال سنے وہ بھی دنیا کے قریب نہ آئے۔
(سیرت الصالحین)
سبق
خدا سے ہر قسم کی نعمت پا کر بھی اس کی ناشکری کرنا انتہائی نا عاقبت اندیشی ہے اور اللہ کی ناشکری سے بھوک فاقہ قحط اور مختلف قسم کی بلائیں نازل ہوتی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان چاہے کتنی بڑی عمر پائے ایک دن اس نے مرنا ضرور ہے۔