تین مسافروں کا قصہ
ایک سفر کے دوران یہودی نصرانی اور مسلمان ہم سفر ہوئے راستے میں ان کو حلوہ ملا تو یہودی اور نصرانی نے چالاکی کے ساتھ مسلمان کو اس حلوے سے محروم رکھنا چاہا اللہ عزوجل کو ان کی یہ چالاکی پسند نہ آئی اور اس نے ایسا بندوبست کیا کہ وہ حلوہ مسلمان کو ملا اس سیدھے سابے مسلمان پر اللہ عزوجل کی رحمت ہوئی۔
اس قصہ کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ چالاکی سے بچوں کی کہیں آزمائش میں مبتلا نہ ہو ان تینوں کا ہمسفر بننا ایسا تھا جیسے پنجرے میں بے جوڑ پرندے رکھے ہوئے ہوں یا قید خانے میں مختلف اقسام کے لوگ یکجا ہوتے ہیں۔
یہی مثال اس دنیا کے عام انسانوں کی ہے راستہ کھلنے پر پڑاؤ کہ مسافر اپنی اپنی راہ اختیار کر لیتے ہیں یا پنجرا کھلتے ہی پرندے اپنی جنسوں کی جانب پرواز ہو جاتے ہیں ایسے پرندے وطن کے شوق میں پر پھیلائے ہوئے ہیں لیکن اڑنے کا راستہ نہیں ہے۔
انسان جو کہ راہ کے طلبگار ہیں آنسوؤں اور آہوں کے پر کھولے راہ کی تلاش میں گم ہیں اور اللہ عزوجل کی یاد میں پر کھولتے ہیں جس طرف سے آنسو اور سوزش آئی جب موقع ملا ان کی طرف چلنا شروع کر دیا کچھ اپنے جسم کے اجزاء پر غور کر کی کہاں کہاں سے ا کر تمہارے جسم کا جزو بنتے ہیں یہ اجزا اپنے مرکز کی جانب منتقل ہونے کا انتظار کرتے ہیں ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب تک حضرت حق کے سامنے پیش نہیں ہوتے جب جلال خداوندی کی گرمی پڑے تو سب چیزیں حاضر ہو جائیں گی۔جب ان تینوں مسافروں کا پڑاؤ آیا تو ایک مہمان نواز ان کے لیے حلوہ لے کر آیا وہ اس فرمان خداوندی سے واقف تھا کہ جو قرآن مجید میں ہے کہ جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں گے تو ان سے کہہ دینا کہ میں ان کے نزدیک ہوں وہ میزبان مسلمان تھے اور محض اللہ عزوجل کی خوشنودی کے لیے مسافروں کے لیے حلوہ لے کر آئے تھے۔
یہودی اور نصرانی کا پیٹ بھرا ہوا تھا اسی لیے کہا! کہ اس کو رکھ دیں اور صبح کھائیں گے مسلمان چوکی دن کے وقت روزے سے تھا اسی لیے اسے بھوک لگی تھی اس نے کہا میں بھوکا ہوں اسے تقسیم کر لیں کیوں کہ میں اسے سارا کھانا چاہتا ہوں۔
نفسانی غرض کے بغیر کی گئی تقسیم اچھی ہوتی ہے انسان بھی اللہ عزوجل کی ملک ہے اگر وہ اپنے آپ کو اور اپنے افعال کو تقسیم کر لے تو کچھ اللہ عزوجل کے لیے اور کچھ لوگوں کے لیے تو گویا وہ مشرک ہے ان دونوں نے اس کی بات نہ مانی ان کا مقصد یہ تھا کہ اس مسلمان کو رات کو بھی بھوکا رکھا جائے مجبورا اس مسلمان کو ان کی بات ماننا پڑی۔
صبح وہ اٹھ کر سب نےاپنے اپنے مذہب کے مطابق اللہ عزوجل کو یاد کیا اور ایک دوسرے کی جانب رخ کر کے بیٹھ گئے اور کہا: کہ ہر شخص اپنا اپنا خواب بیان کرے جس کا خواب اچھا ہوگا وہ اس حلوے کو کھائے گا پس جس کا خواب بہتر ہوا اس کی عقل بھی بہتر ہوئی یقینا اس کی روح پر نور ہوگی اور ایسے بزرگ کی خدمت میں اپنا حصہ اسے کھلانا باعث برکت ہے۔
یہودی نے سب سے پہلے اپنا خواب سنایا: اور کہا! کہ میں جا رہا تھا کہ میری نظر حضرت موسی علیہ السلام اور کوہ طور پر پڑی ایک نور کی تجلی ظاہر ہوئی اور حضرت موسی علیہ السلام اور کوہ طور اس میں چھپ گئے اس نور کی تجلی سے کوہ طور کے تین ٹکڑے ہوئے ایک ٹکڑا سمندر میں گرا تو اس کا زہریلا پانی شیری ہو گیا دوسرا ٹکڑا زمین میں دھنس گیا تو اس میں سے ایک چشمہ پھوٹ پڑا اور بیماروں کے لیے باعث شفا ہوا تیسرا ٹکڑا خانہ کعبہ کے پاس پہنچ گیا اور عرفات کا پہاڑ وجود میں آگیا اب کوہ طور کا دوسرا صغیر شروع ہوا کہ حضرت موسی علیہ السلام کے قدموں میں آسمان سے گرنے والی یک کی طرح نرم ہو گیا اس کے بعد میرے حواس درست ہوئے تو حضرت موسی علیہ السلام اور کوہ طور کو اپنی اصل حالت میں دیکھا یہ عجیب چیز تھی کہ کوہ طور کا دامن عجیب چیز سے پر ہے۔
ہر شخص کے ہاتھ میں حضرت موسی علیہ السلام جیسا عصا ہے اور اس کے بدن پر ان جیسا خرقہ ہے وہ سب خرامہ خرامہ کوہ طور کی جانب جا رہے ہیں حضرت موسی علیہ السلام نے کوہ طور پر دعا کی کہ اے اللہ! مجھے مردوں کو زندہ کرنا دکھا دے اب میں سمجھا کہ یہ انبیاء علیہم السلام کا مجمع ہے اور انبیاء علیہم السلام اپنی دعوت میں متحد ہیں پھر مجھے فرشتوں کی ایک جماعت نظر ائی جیسے وہ برف بنے ہوئے ہیں فرشتوں کی ایک دوسری جماعت بھی میں نے دیکھی جو آتش ہیں معلوم ہوتی تھیں۔
اس خواب پر حیران نہ ہو کہ اس یہودی کا انجام بخیر ہوا اور اس نے مرتے وقت شرک سے توبہ کر لی کسی کافر کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ہو سکتا ہے کہ اسے آخر وقت میں توبہ نصیب ہو جائے۔
یہودی کے بعد عیسائی نے خواب سنایا اور کہا! کہ سب جانتے ہیں کہ اسمان کی چیزیں زمین سے افضل و اعلی ہیں میں حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ چوتھے آسمان پر تھا اسی لیے اس حلوے کو کھانے کا میں زیادہ مستحق ہوں۔
ایک بادشاہ جامع مسجد کی جانب جا رہا تھا اور اس کے آگے نقیب راستے میں سے لوگوں کو ہٹاتا اور مارتا ہوا جا رہا تھا ایک شخص کو دس بیت لگے اور اس کا خون رسنے لگا اس شخص نے بادشاہ کی جانب اپنا رخ کیا وہ صاحب دل تھا اس نے بادشاہ سے کہا کہ اس ظاہری ظلم کو دیکھ کر بدن سے خون رس رہا ہے اور دل کو جو مخفی صدمہ پہنچا ہے وہ بیان سے باہر ہے تو نماز پڑھنے جاتا ہے اگر تیری خیر میں سے اسی طرح کا شر ہے تو پھر تیرے شر کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔
بزرگوں کو بھیڑیے سے وہ نقصان نہیں پہنچتا جو بد نقص مریدوں کے ذریعے پہنچتا ہے بھیڑیے میں وہ مکر و فریب نہیں ہوتا جو انسان میں ہوتا ہے مالدار کا مکر دیکھو کی وہ غریب سائل کی آواز پر مکاری سے بہرا اور اندھا ہو جاتا ہے۔
دنبے نے کہا! کہ ہر ایک اپنی عمر کے متعلق بتائے گا تاکہ علم ہو سکے کہ کون بڑا ہے پھر اس نے کہا: کہ میں اس دنبے کے ساتھ چرتا رہا ہوں جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ قربان ہوا تھا بیل نے کہا کہ میں اس جوڑی کا بیل ہوں جسے حضرت آدم علیہ السلام نے کھیتی کے لیے استعمال کیا تھا اونٹ نے جب دنبے اور بیل کی باتیں سنی تو اپنا منہ نیچے کیا اور گھاس کھا کر بولا کہ مجھے اپنی تاریخ پیدائش بتانے کی حاجت نہیں کی میرا جسم اور میری گردن بتاتی ہے کہ میں تم سے کم عمر نہیں ہوں ہر عقل مند جانتا ہے کہ میرا جسم تم دونوں سے بڑا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ آسمان اپنی بلندی کی وجہ سے اس پست زمین سے بڑا ہے اور اسمان میں زمین کی نسبت زیادہ ا جائے بات پائے جاتے ہیں عیسائی بولا کہ میرا خواب اس یہودی سے بڑھ کر ہوا۔
مسلمان نے کہا! مجھے میرے آقا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات خواب میں فرمایا کہ تیرے ساتھیوں کو بڑا عروج مل چکا اور تو گھاٹے میں رہا تو اپنا گھاٹا اس حلوے کو کھا کر پورا کر لے تم لوگوں نے آسمانوں پر فرشتوں سے اپنی ملاقات کا ذکر کیا میں نے اپنے آقا کے فرمان کے مطابق وہ حلوہ کھا لیا تم بتاؤ کہ اگر تمہیں تمہارے پیغمبر کوئی حکم دیں تو کیا تم اس کی حکم عدولی کرو گے ہرگز نہیں تو پھر میں مسلمان ہو کر اپنے نبی کی حکم عدولی کیسے کر سکتا ہوں۔یہودی اور عیسائی نے جواب دیا کہ تیرا خواب سچا ہے اور ہمارے سینکڑوں خوابوں سے بہتر ہے بس یاد رکھو کہ انسان کو کبھی اپنی بڑائی یا بہادری یا ہنر مندی کا دعوی دار نہیں ہونا چاہیے انسان کے کام آنے والی چیزیں خدمت عبادت اور اطاعت ہیں جو انسان کے اخلاق کو کامل بنانے والی ہیں۔
اللہ عزوجل نے ہمیں عبادت کے لیے پیدا کیا ہے سامری نے ہنر مندی سیکھی اور مردود بن گیا دولت اکٹھی کرنے کے فن قارون کو زمین میں دھنسا دیا ابو جہل نے اپنے ہنر کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر آزمانا چاہا تو نیست و نابود ہو گیا علوم یقینا کو ہنر کہیں گے نہ کہ علوم عقلیہ کو عارف لوگ عقلی دلیل کو اس دلیل سے بڑا جانتے ہیں جو دلیل طبیب کار ہوئے کے ذریعے مریض کو مرض معلوم کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے اگر تمہارے پاس عقلی دلائل کے علاوہ کچھ نہیں تو پھر پیشاب اور گندگی کو دیکھتا رہے۔
عقلی دلائل اندھے کو لاٹھی ہے اور اس کے اندھے پن کی علامت ہے عقلی دلائل اور اس کے مدعا راہ حق میں ذلیل و رسوا ہیں دلائل عقلیہ کی شان و شوکت تو بہت ہے لیکن مدعی بالکل حقیر ہیں اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی اندھا اپنے اندھے پن کے ثبوت کے لیے شور نہ مچائے۔
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں ایک یہودی عیسائی اور مسلمان کے ہمسفر ہونے کا واقعہ بیان کر رہے ہیں اس حکایت کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے ہمیں اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم عقلی دلائل کے بجائے مشاہدہ کی آنکھ سے حق تعالی کو پہچانے عقلی دلائل کے مدعی اور اس کے حامی راہ حق میں ذلیل و رسوا ہیں اور دلائل عقلی بظاہر تو دل فریب نظر آتے ہیں مگر ان کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔