تمام برائیاں جسم ہی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں

تمام برائیاں جسم ہی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں

انسان کی تمام فصلیں اس کی مادی بدن کی بدولت ہیں چونکہ زمین فلک کے درمیان ہے اسی لیے اس کے جس حصہ پر سورج کی روشنی پڑتی ہے وہاں دن ہوتا ہے ورنہ رات ہوتی ہے اب اگر زمین اس دائرے سے خارج ہو جاتی ہے تو اس کی یہ صفت بدل جائے گی اس طرح اگر مجاہدات کے ذریعے جسمانی حجاب رفع کر دیا جائے تو روح ہمیشہ کے لیے منور ہو جائے گی اور اس پر غفلت کے اثار ظاہر نہیں ہوں گے۔

 تمام برائیاں جس محی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور روح کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے چہرے کا رنگ انسانی حالات کے اسباب کی وجہ سے کبھی سرخ کبھی زرد اور کبھی سفید ہوتا ہے اس طرح روم میں بھی بے شمار اشکال مختلف اسباب کی وجہ سے پیدا ہوتی رہتی ہے ورنہ وہ خود پاک خوش ہے۔

انسان جب مجاہدات کے ذریعے اپنے مقصد حقیقی کو پا لیتا ہے تو اسباب کو لات مار دیتا ہے اور مسبب الاسباب ہی کو موثر حقیقی سمجھنے لگتا ہے جب تک ایسا نہیں ہوتا انسان اسباب ہی کے موثر ہونے پر قائم رہتا ہے۔

اس بات سے بے نیاز ہو جاؤ کہ روحین ملا کی سیر کرتی رہتی ہیں جس طرح دوسری ارواح اور عقول لامکاں میں رہتی ہیں یہ بھی لامکانی بن جاتی ہے ایسی کامل روح کے سامنے ہماری عقول پستہ ہیں اور اس روح کامل کا الہام نسخ کی مانند ہوتا ہے۔

جو شخص قرآن مجید اور احادیث شریف میں مذکور احکام سے ان پر حکم لگاتا ہے جن کا حکم قران مجید اور احادیث شریف میں موجود ہے اس کے پاس اگر کوئی قرآنی ایت یا حدیث بطور نظم موجود ہوتی ہے تو وہ اس کے ذریعے سے حکم بیان کرتا ہے ورنہ کسی دوسری نصر پر قیاس کرنے کا حکم جاری کر دیتا ہے۔

روح قدسی کا احساس بھی بمنزلہ نصر کے ہیں اور ہماری عقل و ادراک نزلہ قیاس کے ہیں جو نصم موثر ہے اور عقل کی تدبیر روح کی تاثیر سے ہے اگر روح نے عقل میں تاثیر بھی کر دی ہے تب بھی عقل میں موثر ہے اور عقل کی تدبیر روح کی تاثیر سے ہے۔

اگر روح نے عقل میں تاثیر کر بھی دی تب بھی عقل کو روح کی ہمسری زیب نہیں دیتی اس میں وہ اسباب اور علامات کہاں ہیں جو روح میں ہیں عقل بغض اوقات روح کی تاثیر کو روح سمجھ لیتی ہے اور یہ اس کی غلطی ہے۔

تاثیر اور روح میں وہی فرق ہے جو سورج اور اس کی روشنی میں ہے جب یہ معلوم ہو گیا کہ روشنی اور چیز ہے اور سورج اور چیز تو سالک کو صرف روشنی پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ سورج تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے دنیا میں قدرت کے جو اثار ہیں وہ فانی ہیں لیکن جس کا وصول ذات تک ہو جائے گا وہ دائمی نور میں مستغرق رہے گا اب اس کی جسمانی کثافتیں نور سے مانا نہ ہوں گی اور نہ مظاہر قدرت کا فنا ہونا اس کے لیے غم فراق کا باعث بنے گا۔تمام برائیاں جسم ہی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیںایسا شخص وہی ہوگا جو لا ہوتی ہوگا یا اگر وہ نہ سوتی ہو تو اس نے مجاہدوں کے ذریعے اپنے ناسوتی پن کو ختم کر دیا خاکی اور نہ سوتی ذات کے جلووں کی تاب نہیں لا سکتا اس کو اس طرح جان لو کہ اگر سورج زمین پر ہمیشہ چمکتا رہے تو زمین اسے برداشت نہیں کر سکے گی اور اس میں کوئی چیزاگانے کی طاقت نہیں رہے گی مچھلی چونکہ ابی ہے اس لیے وہ دائمی طور پر پانی کو برداشت کر لیتی ہے سانپ خشکی کی چیز ہے اسی لیے وہ ہمیشہ سمندر میں نہیں رہ سکتا اسی طرح لا ہوتی ہے اور نہ سوتی کو سمجھو۔

کبھی نہ سوتی مکار لا ہوتی بننے کی کوشش کرتا ہے تو بحر وحدت کو رسوا کر دیتا ہے ہاں ایسے اللہ ہوتی انسان بھی ہوتے ہیں جو نہ سوتیوں کا لا ہوتی بنا دیتے ہیں اگر تم نہ سوتی ہو تو لا بھوتوں کی صحبت اختیار کرو کہ وہ تمہیں بحر وحدت میں تیرنا سکھائیں گے یہ لا ہوتی اولیاء ایک قسم کا جادو کرتے ہیں جس سے انسان کی ماہیت بدل جاتی ہے اور ان کا جادو حلال ہے۔

یہ لوگ بہت سی ناممکن باتوں کو اپنے تصرفات کے ذریعے ممکن بنا دیتے ہیں ان کی صحبت میں برا شخص نیک بن جاتا ہے لیکن منکرین ان کو بشر ہی کہتے ہیں وہ اہل اللہ کی صحبت کی تاثیر کا بیان اگر میں قیامت تک بھی کرتا رہوں تو وہ ختم نہیں ہوگا۔

جو لوگ میری ان باتوں سے ملول ہوتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مقرر بیان کرنا بیکار ہے لیکن ان مضامین کا ادا مجھے نئی زندگی عطا کرتا ہے روشنی کی تکرار شمع کو نئی زندگی عطا کرتی ہے سورج کی شعاعوں کے مقرر پڑھنے سے زمین میں سونے کی کان پیدا ہوتی ہے بعض اوقات ایک مقدار کی محفل میں موجود ہونے سے لوگوں کی محفل مقدار ہو جاتی ہے اور مضامین عالیہ کی امد بند ہو جاتی ہے۔

اللہ عزوجل کے نیک بندے ہیں دلوں کو پیغام دیتے ہیں اور اسرار الہی بیان کرتے ہیں ایسے اولیاء اللہ علیہم السلام کا مزاج شاہانہ ہوتا ہے اور وہ مریدوں کی اصلاح میں کوشاں رہتے ہیں مرید کے لیے محض ذکر و فکر کافی نہیں بلکہ شیخ کے اداب اور اس کی خدمت بجا لانا بھی لازم ہے۔

جب مرید شیخ کی اطاعت کرتا ہے تب کہیں جا کر وہ نسبت مرید کے سپرد کرتا ہے اور صرف معمولی ادب سے کام نہیں چل سکتا بلکہ شیخ کے شایان شان ادب کرنا لازم ہے ایسا ادب جو شیخ میں شکر گزاری کی کیفیت پیدا کرے اور جب تک طلب صادق نہ ہو اسرار کی تعلیم نہیں دی جا سکتی۔

اولیاء اللہ علیہم السلام کو لوگوں کی بے رغبتی کے باوجود بھی اسرار کی بارش کرتے رہنا چاہیے جو مبلغ سامعین کی بے رغبتی کے باوجود بھی اپنا بیان جاری رکھتے ہیں وہ مبارکباد کے مستحق ہیں بے توجہ لوگوں کے سامنے اگر اسرار کے بیان سے شرمندگی طاری ہو تو اس کو برداشت کرو کامل مرشد ایسے حالات میں پریشان نہیں ہوتے جس طرح جانور اپنے دشمن کی بو سونگھ کر بھاگ جاتے ہیں اسی طرح پریشانی مرشد کامل کی خوشبو سے بھاگ جاتی ہے۔

وجہ بیان

مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ مرشد کامل کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مرشد کامل سورج کی مانند اپنی روشنی زمین پر بکھیرتا ہے اور مرشد کامل کے انوار سے لوگوں کے قلوب روشن ہوتے ہیں مرشد کامل کی خوشبو سے مرید کی پریشانی بھاگ جاتی ہے اور مرید جب خود کو مرچی کامل کے سپرد کر دیتا ہے تو پھر مرشد کامل اسے نعمت عظمی کا حقدار ٹھہراتا ہے پس مرید کے لیے ذکر و فکر ہی نہیں بلکہ مرشد کامل کی خدمت بجا لانا بھی لازم ہے۔

حدیث حب وطن کا بیان

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔