تحمل و برداشت کا مادہ

تحمل و برداشت کا مادہ

ایک بزرگ سرزمین وخش میں رہتے تھے انہوں نے اپنی عمر کے آخری حصے میں گوشہ نشینی اختیار کر لی یہ بزرگ ان لوگوں میں سے تھے جو دکھاوے کے لیے کوئی کام نہ کرتے تھے اور نہ ہی دنیاوی فائدہ حاصل کرنے کے لیے دینداری کا ڈھونگ رچاتے تھے دنیا میں برے لوگوں کی کوئی کمی نہیں اور برا چاہنے والوں کی زبان پکڑنا بھی کسی کے بس میں نہیں ہے۔

ان بزرگ کا بھی ایک بد خواہ پیدا ہو گیا اور وہ جہاں جاتا ان بزرگ کی برائی کا کوئی پہلو ہاتھ نہ جانے دیتا تھا کبھی کہتا کہ ان رنگے ہوئے کیڑوں کا کیا بھروسہ یہ تو دکھاوے کے لیے پرہیزگاری اختیار کیے ہوئے ہیں اور وہ ان بزرگ کی ذات میں کئی طرح کے عیوب نکالا کرتا تھا۔

ان بزرگ کو کسی طرح یہ بات معلوم ہو گئی کہ فلاں شخص ان کے متعلق یہ خیالات رکھتا ہے آپ اس شخص کا حال سن کر ابدیدہ ہو گئے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور کہا: کہ اے اللہ! تو اس شخص کو توبہ کی توفیق عطا فرما اور اگر وہ برائیاں واقعی میری ذات ہیں جنہیں وہ بیان کرتا ہے تو مجھے بھی توفیق عطا فرما اور مجھے ان برائیوں سے بچا۔تحمل و برداشت کا مادہحضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اگر تمہیں دشمن کی کسی بات کا برا لگے تو ایسی زندگی بسر کرو کہ اس کی کہی ہوئی بات غلط ثابت ہو جائے اور جو مجھے میرے عیوب سے آگاہ کرے وہ میرا دوست ہے۔

وجہ بیان

حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں ایک بزرگ کا قصہ بیان کرتے ہیں جن کے حاسدوں نے ان کے متعلق غلط باتیں مشہور کر دی ان بزرگ کو جب اپنے حاسدوں کے ان حالات کا علم ہوا تو انہوں نے بارگاہ الہی میں دعا کی کہ اے اللہ اسے توبہ کی توفیق دے اور اگر وہ برائیاں واقعی میری ذات میں ہیں تو مجھے ان برائیوں سے محفوظ رکھ۔

بس یاد رکھو کی تحمل و برداشت کا مادہ اگر انسان کے اندر موجود ہے تو وہ کسی کی غلط بات کو بھی برداشت کر لیتا ہے اور بجائے طیش میں آنے کے وہ اپنے رویہ سے اس بات کو غلط ثابت کر دیتا ہے یہ ضروری نہیں کہ کسی کی بدسلوکی کا جواب بد سلوکی سے دیا جائے۔

ہمارے آقا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کی ایک گلی سے گزرتے تھے تو ایک بڑھیا ان پر کوڑا پھینکتی تھی ایک دن اس نے کوڑا نہ پھینکا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر چلے گئے تاکہ وجہ جان سکیں جب گھر میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ وہ بڑھیا بیمار ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تیمارداری کی اور آپ کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئی۔

خاموشی ایک ایسی شے ہے جو تیری جہالت کو چھپاتی ہے

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔