صوفیوں کے سینے ذکر و فکر سے بھرے ہوتے ہیں
بادشاہوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے بائیں ہاتھ پر پہلوانوں کو کھڑا کرتے ہیں کیونکہ دل بائیں جانب ہے اہل قلم اور محاسب کو بادشاہ دائیں جانب کھڑا کرتے ہیں کہ درج کرنے اور لکھنے کا عمل دائیں ہاتھ کا ہے صوفیا کرام کو سامنے جگہ دیتے ہیں کیوں کی وہ روح کا آئینہ ہوتے ہیں اور ظاہری آئینے سے بہتر ہیں۔
بس صوفیوں کے سینے ذکر و فکر سے بھرے ہوتے ہیں آئینہ کی صورت ان کے دل پر درست نقش ابھارتے ہیں جو اصل میں حسین ہو وہ آئینہ اپنے سامنے رکھتا ہے جو شخص خوبصورت اور موزوں رکھتا ہو وہی حقیقت میں آئینہ کا طا لب ہوتا ہے۔
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ یہاں بادشاہوں کی عادت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ صوفیوں کے سینے ذکر و فکر سے بھرے ہوتے ہیں اور ان پر آئینہ کی مانند درست نقش ابھارتے ہیں پس تم بھی صوفیائے کرام کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو تاکہ حقیقت سے آشنا ہو۔