سخاوت بہشت کا ایک درخت ہے
خبردار! ایسا ہرگز نہ کہو کہ میں کل شروع کروں گا آج کا کام کل پر نہ ڈالو اس معاملے میں صرف باتوں سے کام نہیں چلتا سخاوت اور خیرات کو اپناؤ اور بدن کی سخاوت یہ ہے کہ اسے جسمانی لذتوں اور شہوتوں سے دور رکھا جائے اور اسے عبادت میں مشغول رکھا جائے حدیث شریف کے الفاظ ہیں سخاوت بہشت کا ایک درخت ہے اور جو شخص سخی ہے اس نے اس درخت کی ایک شاخ کو پکڑ رکھا ہے وہ شاخ سخی کو اس وقت تک نہیں چھوڑتی جب تک اس کو بہشت میں داخل نہیں کروا دیتی۔
اے انسان! تو حسن کا یوسف ہے اور یہ جہاں کنواں ہے اور رسی اللہ عزوجل کے حکم پر صبر کرنا ہے اللہ عزوجل کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں نجات کا طریقہ بتا دیا ہے جو کہ توبہ و استغفار ہے اس طریقے سے اللہ عزوجل کے مقرب بندوں میں داخل ہو جاؤ جب بھی کوئی بگولہ اٹھتا ہے تو غرد و غبار نظر آتا ہے اور ہوا جو کہ اس کی اصل ہے وہ نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے انسان بولے کو دیکھ کر سمجھتا ہے کہ گرد اڑ رہی ہے لیکن عالم شہود میں بھی دراصل غیب کام کر رہا ہے جیسے بگولے میں ہوا پس اصل عالم غیب کو سمجھو۔
ہمارے ظاہری ہوا عالم شہود کو دیکھتے ہیں لیکن اللہ عزوجل کے نیک بندوں کی نگاہ عالم غیب کو دیکھتی ہے عالم ظاہر میں جو کچھ عمل ہو رہا ہے وہ محض چھلکا ہے اور فنا ہونے والا ہے اصل محرک تو عالم غیب میں ہے جو ظاہری نگاہوں سے پوشیدہ ہے ہنسی نظر صرف عالم شہود کی چیزوں کو ہی جان سکتی ہے لیکن ظاہری انکھ کا سوار بھی اللہ عزوجل کا غیبی نور ہے گھوڑے کی آنکھ رہبر کی انکھ ہوتی ہے ورنہ گھوڑے کی نگاہ تو گھاس اور دانے پر ہوتی ہے۔
اسی طرح ہنسی آنکھ کے پیش نظر صرف دنیاوی اشیاء ہوتی ہیں اگر نور بسر پر نور حق سوار ہوتا ہے تو اس کو آخرت کی نعمتیں نظر آتی ہیں۔
نور بصیرت کے بغیر محض نور بصارت سے وصال علی الحق ممکن نہیں اور قرآن مجید میں نور علی نور سے مراد یہی ہے نور حسین کو دنیا کی جانب مبزول کرواتا ہے اور اس کے جملہ محسوسات عالم اسفل کے ہیں جن لوگوں کو نور حق حاصل ہو گیا ان کی باتوں اور بھلے کاموں سے سمجھ آجاتا ہے کہ ان کو نور حق حاصل ہو گیا ہے۔
نور بصیرت جو کی مادی چیز ہے وہ بھی نظر نہیں آتا تو پھر نور بصیرت جو کہ نور ایمان ہے وہ کیسے نظر آسکتا ہے اس جہان نے عالم غیب کی مہربانی سے عاجزی اختیار کی ہوئی ہے اور یہ عالم ہر اس تصرف کو قبول کر لیتا ہے جو عالم غیب اس میں کرتا ہے کوئی قلم بغیر ہاتھ کے نہیں لکھتا نہ کوئی گھوڑا بغیر گھڑ سوار کے گھڑ دوڑ میں دوڑتا ہے ظاہر ہے کہ عالم کہ جملہ تصرفات کا کوئی کرنے والا تو ہے قضا و قدر کہ جس قدر تیر ہیں وہ علیم و قدیر کے چلائے ہوئے ہیں اور اس میں اس کی کوئی حکمت پوشیدہ ہے۔
غزوہ بدر میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مٹھی خاک دشمنوں کی جانب پھینکی جس نے آندھی کی مانند دشمنوں کی آنکھوں کو متاثر کیا اگر کوئی تیر تمہیں آلگے تو اسے قضا و قدرت کی جانب سے جان اور غم و غصہ نہ کر غصہ کی حالت غلط بینی کے باعث ہوتی ہے اور انسان کو ہمیشہ قضا پر راضی رہنا چاہیے اس جہان میں جو ذات حقیقتا متصرف ہے وہ ہماری نگاہوں سے پردہ میں ہے ہر انسان کا دل قدرت کے قبضے میں ہوتا ہے جسے وہ ایک ان میں پلٹ کر رکھ دیتی ہے۔
ہر سالک کو چونکہ بے شمار مراتب طے کرنے ہوتے ہیں اسی لیے اس راہ میں خطرات بھی بے شمار ہیں سالک مراتب حاصل کرنے کے بعد ہی مقام امن پر پہنچتا ہے کمال حاصل کرنے کے بعد خطرات کا ازالہ ہو جاتا ہے اور پھر وہ نقصان کی جانب نہیں لوٹتا کمال عبدیت کے بعد انسان کو رب کی جانب سے سلطانی عطا ہوتی ہے اور اس سے باطنی تصرفات سرزد ہوتے ہیں۔
مریدین کے دل شیخ کے تصرف سے کبھی قبض میں مبتلا ہوتے ہیں کبھی بس تمہیں پیر کے دل پر نقش خداوندی ہوتا ہے اور مرید کے دل پر پیر کا نقش ابھرتا ہے ہر حلقہ یا سلسلہ کے یکے بعد دیگر جس قدر مرید ہوتے چلے جائیں گے ان کی صورت ہوگی پیر کے دل کے منقش خداوندی کی وجہ سے مرید کے دل پر شیخ کی توجہ کی بدولت اسرار و حکمت کے لاکھوں چشمے پھوٹتے ہیں اور خدانخواستہ شیخ کی توجہ کے ہٹ جانے سے پابند ہو جانے سے معارف کفریہ خیالات کا سبب بن جاتے ہیں۔
کوہ طور نے جب اس پر اللہ عزوجل کی تجلی پڑی اسے قبول کر لیا پہاڑ تو فیوض کو قبول کر کے اور انسان اپنے اندر ایسی صلاحیت پیدا نہ کرے تو نہایت شرم کی بات ہے اسی زمین میں انسان کے دل اور اعضا پر اللہ ذوال کے قرب کے فیوض ساری ہونے چاہیے اور ضروری ہے کہ بدن کو مجاہدات کے پیشان سے اکھاڑ پھینکا جائے خواہ اس زندگی میں تکلیف کیوں نہ محسوس ہو؟
اگر مجاہدات سے مقام فنا حاصل کر لیا جائے تو مقام احسان حاصل ہو جائے گا یہ مقام انسان کو پھلوں کی صحبت سے نہیں مل سکتی ہے مقام فنا میں پہنچ کر انسان خدائی رنگ میں رنگا جاتا ہے جیسے لوہا اگ میں فنا ہو کر لوہا ہوتے ہوئے بھی آگ کی صفات کا حامل ہوتا ہے جیسے وادی ایمن میں درخت میں سے انی اللہ کی آواز آتی تھی۔
منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ کے انا الحق کہنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ فنائیت کلی وجہ سے صفات خداوندی سے متصف ہو گئے جیسے لوہا سرخ ہو کر زبان حال سے اپنے آگ ہونے کا دعوی کرتا ہے اسی طرح بعض اہل اللہ بھی جب اخلاق خداوندی حاصل کر لیتے ہیں تو وحدت کے مدعی ہو جاتے ہیں انسان میں جب اخلاق خداوندی پیدا ہو جاتے ہیں تو اس میں مسجود ہونے کی صفت خداوندی پیدا ہوتی ہے ذات حق کی آگ سے تشبیہ نہیں دی جاتی دی جا سکتی یہ بات میں سمجھانے کے لیے تھی اسی لیے اس معاملے میں خاموشی بہتر ہے۔
ذات و صفات کی بحث نہ پیدا کنار سمندر ہیں ان میں کودنا مناسب نہیں میرے (مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ) جیسے سینکڑوں عالم بھی مل جائیں تو ان بحثوں کو سلجھا نہیں سکتے۔
بے شک یہ ایک نازک کام ہے لیکن میں ذات و صفات کے ذکر کے بغیر صبر نہیں کر سکتا کہ میں بطخ ہوں جو اپنے آپ کو دریا کے سپرد کر دیتی ہے کہ جس جانب چاہے بہا لے جائے ذات و صفات کے ذکر میں غلبہ حال میں کبھی سوئے ادب بھی ہو جاتا ہے لیکن ذکر کرنا بہرحال نہ کرنے سے بہتر ہے شیخ کامل خدائی حوض کی مانند ہوتا ہے جس کا تعلق دریائے باطن سے ہوتا ہے شیخ کامل کہ باطن کا اتصال ذات باری تعالی سے ہے نیک لوگوں کو بھی شیخ کامل کا دامن تھام لینا چاہیے ورنہ ان کے محدود و پاکی کسی بھی دن ختم ہو جائے گی۔
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ یہاں فنا فی اللہ کا مسئلہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس نازک مسئلے پر بات نہ کرنا ہی بہتر ہے کہ اس نازک مسئلہ کہ بیان میں بے شمار کوتاہیوں کا اندیشہ ہے انسان کو آج کا کام کل پر نہیں چھوڑنا چاہیے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ سخاوت جنت کے ایک درخت کا نام ہے اور سخی جب راہ خدا میں خرچ کرتا ہے تو اس درخت کی شاخ کو پکڑ لیتا ہے پھر یہ شاخ اس نے جنت میں داخل کروا دیتی ہے۔