شرعی مسئلہ کو صرف عالم دین ہی بیان کر سکتا ہے
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں بلخ سے بامیان کی جانب جا رہا تھا اور راستہ پر خطر تھا میری رہنمائی کے لیے ایک نوجوان میرے ہمراہ ہو لیا وہ نوجوان ہتھیاروں سے لیس تھا اور اس کا قد طاقتور تھا کہ وہ ایک وقت میں دس آدمیوں پر قابو پا سکتا تھا دنیا بھر کے پہلوان اسے کشتی میں پچھاڑ نہ سکتے تھے۔
وہ نوجوان ناز نیم میں پلا بڑھا اور کبھی اتنا سفر نہ کیا تھا اور نہ ہی اسے کبھی کسی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا تھا بہادروں کے نفاروں کی آواز اس کے کانوں نے کبھی نہ سنی تھی اور نہ ہی سواروں کی تلواروں کی چمک اس نے کبھی دیکھی تھی نہ ہی وہ کبھی کسی دشمن کا قیدی بنا تھا اور نہ ہی اس کے چاروں جانب کبھی تیروں کی بارش ہوئی تھیَ
ہم راستہ میں آگے پیچھے دوڑے جا رہے تھے میں نے دیکھا کہ راستہ میں جو بھی بوسیدہ دیوار آتی ہے وہ اس کو گرا دیتا اور بڑے سے بڑے درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا تھا پھر وہ فخر سے یہ اشعار پڑھتا جن کا ترجمہ ذیل ہے۔
ہاتھی کہاں ہے آئے اور پہلوان کے بازو اور کندھے دیکھے اور شیر کہاں ہے آئے اور مرد کے ہاتھ اور پنجے دیکھے۔
اس دوران دو ڈاکو ایک بڑے پتھر کے پیچھے سے نکلے اور ہم سے لڑائی کا ارادہ کیا ایک کے ہاتھ میں لکڑی اور دوسرے کے ہاتھ میں موگری پتھر تھا میں نے اس نوجوان سے کہا: کہ دیکھتے کیا ہو؟ دشمن سر پر کھڑا ہے اور لڑنا چاہتا ہے تمہارے پاس جو طاقت اور بہادری ہے وہ انہیں دکھاؤ یہ دشمن اپنے پاؤں پر چل کر اپنی قبر کے پاس آگئے ہیں۔میں نے دیکھا کہ اس نوجوان کے چھکے چھوٹ گئے اور تیر کمان ہاتھ سے گر گیا اور جسم کانپنا شروع ہو گیا ضروری نہیں ہوتا کہ تیر کو نشانے پر لگانے والا بہادر کے حملے کے وقت بھی ٹھہر سکے میں جان گیا کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ سامان ہتھیار اور کپڑے سب کچھ چھوڑ کر اپنی جان بچائی جائے۔
کام بڑا ہو تو کسی تجربے کار کو بھیج دو پھر گزرے ہوئے شیر کو بھی کمند کے حلقے میں پھنسا لے اور اگر جوان نہ سمجھ موٹی گردن اور ہاتھی کی مانند جسامت رکھتا ہو تو دشمن کے سامنے آنے پر اس پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے لڑائی صرف تجربے سے ہی لڑی جا سکتی ہے اور شرعی مسئلہ کو صرف عالم دین ہی بیان کر سکتا ہے۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں ایک نوجوان کا قصہ بیان کرتے ہیں جو ان کے ساتھ عاظم سفر ہوا اور اپنی جسامت میں کسی سانڈ سے کم نہ تھا اس نوجوان نے کبھی کوئی تکلیف برداشت نہ کی تھی اس لیے راستے میں جب چوروں نے گھیر لیا تو وہ نوجوان کانپنا شروع ہو گیا.
بس یاد رکھو جس کا کام اسی کو ساجھے تم کسی شرعی مسئلے کو کسی عالم سے ہی دریافت کر سکتے ہو اگر کسی جاہل سے دریافت کرو گے تو وہ یقینا تمہیں گمراہ کرے گا۔