صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی مشکلات کو بیان کرنا
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری یہ مشکل حل فرما دیجئے ہمیں سمجھ نہیں تی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے والے پہلی امتوں سے زیادہ ثواب کے حقدار کیوں ہوں گے جب کہ عمل دونوں ایک جیسے کریں گے پھر یہ فرق کیوں ہے انصاف کی ترازو لٹک رہی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ انسان جو کمائی کرے گا اسی کے معاوضے کا حقدار ہوگا حدیث شریف میں ہے کہ ہر شخص کو اتنا ہی اجر ملے گا جتنی اس نے قربانی دی ہوگی یا مشقت اٹھائی ہوگی-
قرآن مجید میں ایک اور موقع پر ارشاد باری تعالی ہے کہ جن کے پلڑے جھک جائیں گے اور ہر صاحب عقل جب کسی کام کے لیے مزدوری کرتا ہے تو ان کی فہرست تیار کرتا ہے اور اس فہرست میں یہ درج کرتا ہے کہ اس نے فلاں روز و فلاں باغ میں بیلچہ چلایا فلاں نے پانچ دن اور فلاں نے ایک دن فلاں کاریگر نےاس دکان پر اتنی محنت کی اتنے جوڑے سیے اتنے پیالے بنائے یا اتنی گانٹیں تیار کیقرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ اللہ عزوجل نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں وہ بھی جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے کہ تمہارے رب نے زمین و آسمان کے ایک ایک ذرے کا وزن بھی پوشیدہ نہیں ہے- وہ ایسا دانہ و بینا ہے کہ اندھیری رات میں کالے پتھر پر اگر کوئی سیاہ چیونٹی بھی چلتی ہے تو اس کے ننھے ننھے پاؤں اٹھتے ہیں اور ٹکتے ہیں یا وہ دوڑتی ہے تو وہ ہر شے کو ہر وقت ہر پہلو سے دیکھنے اور جاننے والا ہے- کائنات کی ہر ایسی چیونٹی کے متعلق ہر لمحہ یہ علم بھی رکھتا ہے کہ اب اس کا پاؤں اٹھا اور اب ٹکا اس تاریکی میں اب یہ دوڑی اور اب رکی اب اس کا پاؤں پھسلا اب یہ سمبلی اور اب یہ میانہ روی سے چلتی ہے اب یہ تھک کر خستہ حال ہو گئی اور اب سر بٹ بھاگی جا رہی ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اسے چیونٹی کی اس بھاگ دوڑ کا سبب گھر والوں کی فکر ہے یا دانے کا لالچ ہے؟ یہ کوئی کیلنڈر چیونٹی ہے یا فرض شناس مسافر ہے ایسا واقف راز پر پروردگار کیا ہے اپنے بندوں کی کوشش اور تکلفات سے اگاہ نہیں؟
کیا وہ نہیں جانتا کہ گنہگار کی آنکھ سے کتنے قطرے آنسوؤں کے بہے؟ کتنی درد کی آہیں بلند ہوئیں؟ کتنے رخسار خون کے اشکوں سے تر ہوئے؟ کتنے کلیجوں سے لہو ٹپکا؟ کون اس کا عارف ہے؟ کون اس کی یاد میں سانس لے رہا ہے؟ کون فقط تسبیح کے دانے ڈھلکا رہا ہے؟ کون فجر سے ہی اس کا راگ الاپ رہا ہے؟ کون سلوک کی منازل طے کر رہا ہے؟ کون جہاد کی راہ پر گامزن ہے؟ صبح شام اس کے دربار کے اندر اور باہر کون وجد کرتا ہے؟ کون فقط دعا گو ہے؟ جو لوگ رات کے تخلیہ میں منازل طے کرتے ہیں ان کی نگاہ میں بادشاہوں کے تاج و تخت حقیر ہیں-
یہ سفر جان کی ہمت سے طے کیا جاتا ہے اس لیے سوار اور پیادے کی شرط لازم نہیں یہاں دل کو قابو میں رکھنا پڑتا ہے شوق سے راہ کرتی ہے اس مسافت میں نہ سواری مل سکتی ہے اور نہ ہی کوئی توشہ کام ا سکتا ہے؟ پاؤں اٹھتا ہے تو کل اور جذب کے مالک کے توکل پر اٹھتا ہے ایسا باخبر اللہ بھلا اپنے بندوں کی جانثاری کا حال اپنے علم قدیم میں نہ لکھتا ہوگا؟ اس کو ذرا ذرا اور ایک ایک بال کا حال کیا یاد نہ ہوگا؟
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ وہ جو کچھ عمل کرتے ہیں اسے لکھ لیا جاتا ہے ایسے ہر شخص کی کیفیت کا علم ہے کہ اب اس نے فلاں کام کیا؟ اور کب اس نے ندامت کا سامان مہیا کیا؟ ایسے پہلوؤں کے احوال کا بھی علم ہے اور پچھلوں کے احوال سے بھی وہ باخوبی واقف ہے پھر ایسا منصف مزاج خدا جس کی انصاف پسندی ایک بال کی دو پھانک کرے ایسے پھانک کے برابر بھی تجاوز ناپسند کرتی ہے وہ کیسے گوارا کر سکتی ہے کہ ایک ہی جیسے عمل کرنے والوں میں سے ایک کو تو ایک حصہ ثواب عطا فرمائے اور دوسرے کو ایک لاکھ حصہ ثواب عطا فرمائے-
اے اللہ عزوجل کے محبوب اے اسمانوں اور زمین والوں کی مشکلات کو حل کرنے والے اے دونوں جہانوں کے لیے رحمت ہمارے اس مشکل کو حل فرما دیجئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی زمین و آسمان کی مشکلات حل کرنے والا کوئی نہیں ہے اس دنیا میں سچائی سے واقف انسان کی علامت یہ ہے کہ اس کے خیالات رموز الہی کے ترجمان ہوتے ہیں اس صحرا میں خاص قسم کے پرندے ہی آجا سکتے ہیں اگر ان کے جسم کی بناوٹ ان کی طاقت ان کے پروں کی ساخت پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس صحرا کا راستہ اور وہاں کے حالات کتنے مشکل یا آسان ہیں
اللہ عزوجل کے حبیب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمارا درود و سلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرانی حقیقتوں کے ترجمان ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب و عجم میں سب سے زیادہ فصیح ہیں آپ علم کی کان ہیں آپ بخشش اور مہربانی کا خزانہ ہے آپ ایسے بادشاہ ہیں جو نکارے اور پھرے کے محتاج نہیں آپ کائنات کے سلطان ہیں اور تمام موجودات کے سردار ہیں
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے میرے عزیزو اے میری بات ماننے والے رفیق کو غور کرو ایک زبردست سیلاب پہاڑوں کے ذریعے اترتا ہے وہ عاشق کی مانند بھاگتا ہوا سمندر سے گلے جا ملتا ہے اس سیلاب کے کتنے ہزار پاؤں ہیں یاد رکھو ہر پانی ہر دوسرے پانی کا دست و باز ہوتا ہے پانی پانی کا ہاتھ بٹاتا ہے پانی کا بوجھ اٹھاتا ہے پانی کا سہارا پانی ہے پانی کو تقویت پانی سے ہی ملتی ہے یہ پانی کا قافلہ جب پہاڑوں اور ویرانوں کو طے کرتا ہوا ندی نالوں سے جو اس کے بھائی بند ہیں ان سے کمک حاصل کرتا ہوا اپنے اصلی مقام پر پہنچ جاتا ہے یہاں پہنچ کر ہر قطرہ قران مجید کی زبان میں نعرہ لگاتا ہے کہ بندہ اپنے مولا کے ساتھ اس شان سے جا ملا کہ دونوں ایک دوسرے سے راضی ہیں کیا اس واقعے میں کوئی حیرانگی کا مقام ہے
حیرانگی کا مقام یہ ہے کہ ایک اکیلا قطرہ کسی پہاڑ کی چٹان یا کسی غار کے منہ یا کسی ایسے بیان میں جس کا اور کوئی ساتھی نہیں تنہا رہ جاتا ہے اس تنہا قطرے میں بھی یہ شوق پیدا ہو جاتا ہے کہ ہمارا چشمہ تو سمندر ہے وہاں پہنچنا چاہیے تر و تازہ قطروں سے ملاقات کر کے ان کی صحبت میں رہنا چاہیے اب یہ اکیلا قطرہ جس کے نہ ساتھی ہیں اور نہ کوئی رہنما نہ ہی کوئی پشت و پناہ ہے اور بے دست و پا تنہا ہے نہ اس کے پاؤں میں شکست کا ما سوائے شوق کے پھر یہ اکیلا قطرہ سمندر کی جانب چل پڑتا ہےریگستان کی تپش سے پاؤں میں ابلے پڑ جاتے ہیں جنگل کے کانٹے اس کے تلووں کو زخمی کر دیتے ہیں ما سوائے ذوق طلب کے کوئی سواری اسے میسر نہیں اور ما سوائے توکل کے کچھ اس کے پاس نہیں اور سوائے یقین کے کوئی زادیرا اس کے پاس نہیں ہے اے ننھے قطرے خاک تیری دشمن ہو تیری دشمن دھوپ تیری دشمن تیرا ہمدرد کون ہے تیری منزل سمندر ہے جو کہ بہت دور ہے اے کمزور قطرے تو سمندر تک پہنچنے کی امید کیسے کر سکتا ہے
قطرہ کہتا ہے کہ میں ہوں تو ایک ناچیز لیکن میری جان میں شوق کی وہ بے چینی ہے جسے کوئی رکاوٹ ہو مایوس نہیں کر سکتی یہ سمندر کی کوشش کا اثر ہے اس راہ میں شاید عظیم اس شان سیلاب بھی تھک تھک کر خشک ہو جانے کے خوف سے لرز اٹھتے ہیں
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ اس امانت کی ہیبت سے زمین و آسمان اور پہاڑ کانپ اٹھے پہاڑ نے کہا الہی: ہم یہ بوجھ کیسے اٹھا سکتے ہیں زمین نے کہا کہ میں اس امانت کا بوجھ اٹھانے والوں کے لیے راستہ تو بن سکتی ہوں مگر اس بوجھ کو نہیں اٹھا سکتی اسمان بھی کانپ اٹھا اور پھر آسمان کی ایک بوند کے برابر جاننے اس بارے عظیم کو اٹھا لیا
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی اس مشکل کا ذکر فرما رہے ہیں جس کا ذکر انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کی پہلی امتوں کے نیک لوگوں سے ہمارے نیک اعمال کیوں بہتر ہیں تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ تم نے اس بار عظیم کو قبول کیا جسے قبول کرنے سے زمین و آسمان بھی عاجز رہے پس یاد رکھو کہ اگر تم قران مجید کو اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو تھامے رہو گے تو یقینا فلاح پاؤ گے اور آخرت میں انعام و اکرام کے حقدار ٹھہرو گے نیز اس حکایت میں امت محمدیہ کی فضیلت کو دیگر امتوں پر واضح کیا گیا