سامری سنار
بنی اسرائیل میں سامری نام کا ایک سنار تھا یہ قبیلہ سامرا کی طرف منسوب تھا اور یہ قبیلہ گائے کی شکل کے بت کا پجاری تھا سامری جب بنی اسرائیل کی قوم میں آیا تو ان کے ساتھ بظاہر یہ بھی مسلمان ہو گیا مگر دل میں گائے کی پوجا کی محبت رکھتا تھا۔
چنانچہ جب بنی اسرائیل دریا سے پار ہوئے اور بنی اسرائیل نے ایک بت پرست قوم کو دیکھ کر حضرت موسی علیہ السلام سے اپنے لیے بھی ایک بت کی طرح کا خدا بنانے کی درخواست کی اور حضرت موسی علیہ السلام اس بات پر ناراض ہوئے تو سامری موقع کی تلاش میں رہنے لگا۔
چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام تورات لانے کے لیے کوہ طور پر تشریف لے گئے تو موقع پا کر سامری نے بہت سا زیور پگھلا کر سونا جمع کیا اور اس سے ایک گائے کا بت تیار کیا اور پھر اس نے کچھ خاک اس گائے کے بت میں ڈالی تو وہ گائے کے بچھڑے کی طرح بولنے لگا اور اس میں جان پیدا ہو گئی سامری نے بنی اسرائیل میں اس بچھڑے کی پرستش شروع کرا دی۔
اور بنی اسرائیل اس بچھڑے کے پجاری بن گئے حضرت موسی علیہ السلام جب کوہ طور سے واپس تشریف لائے تو قوم کا یہ حال دیکھ کر بڑے غصے میں آئے اور سامری سے دریافت فرمایا: کہ اے سامری! یہ تو نے کیا کیا؟ سامری نے بتایا: کہ میں نے دریا سے پار ہوتے وقت جبرائیل کو گھوڑے پر سوار دیکھا تھا اور میں نے دیکھا کہ جبرائیل کے گھوڑے کے قدم جس جگہ پر پڑھتے ہیں وہاں سبزہ اگ آتا ہے میں نے اس گھوڑے کے قدم کی جگہ سے کچھ خاک اٹھا لی اور وہ خاک میں نے بچھڑے کے بت میں ڈال دی تو یہ زندہ ہو گیا۔
اور مجھے یہی بات اچھی لگی میں نے جو کچھ کیا ہے اچھا کیا ہے حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا: اچھا تو جا دور ہو جا اب اس دنیا میں تیری سزا یہ ہے کہ تو ہر ایک سے یہ کہے گا کہ مجھے چھونہ جانا یعنی تیرا یہ حال ہو جائے گا کہ تو کسی شخص کو اپنے قریب نہ آنے دے گا۔
چنانچہ واقعی اس کا یہ حال ہو گیا کہ جو کوئی اس کو چھو جاتا تو اس چھونے والے کو اور سامری کو بھی بڑی شدت کا بخار ہو جاتا اور انہیں بڑی تکلیف ہوتی اسی لیے سامری خود ہی چیخ چیخ کر لوگوں سے کہتا پھرتا کہ میرے ساتھ کوئی نہ لگے اور لوگ بھی اس سے اجتناب کرے تاکہ اس سے لگ کر بخار میں مبتلا نہ ہو جائیں اس عذاب دنیا میں گرفتار ہو کر سامری بالکل تنہا رہ گیا اور جنگل کو چل پڑا اور بڑا ذلیل ہو کر مرا۔
(قرآن کریم)
سبق
آج بھی گو کے پجاری چھوت چھات کے علم برادر ہیں اور جس طرح وہ مسلمانوں سے الگ رہنا چاہتے ہیں اسی طرح مسلمانوں کو بھی ان سے اجتناب رکھنا چاہیے۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جبرائیل کے گھوڑے کے قدم کی خاک سے اگر زندگی مل سکتی ہے تو جبرائیل کے بھی آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور حضور کے امتی جو اولیاء اللہ ہیں ان کے دم قدم سے ہزاروں لاکھوں فیوض و برکات کیوں حاصل نہیں ہو سکتے اور یقینا ہوتے ہیں لیکن جو دل کے اندھے ہیں اور سامری سے بھی زیادہ شکتی ہیں وہ ان اللہ والوں کے فیوض و برکات سے منکر ہیں۔