رزق اور عہدے کی تقسیم
جب خلیفہ ہارون رشید مصر پر قابض ہوا تو اس نے کہا کہ یہ وہ ملک ہے جہاں کے حاکم فرعون نے خدائی کا دعوی کیا پس میں اس پر کسی ذلیل کو حاکم کروں گا خلیفہ ہارون رشید نے ایک حبشی غلام جس کا نام خضیب تھا اس کو مصر کا والی بنا دیا۔
اس حبشی غلام کی عقل کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار کسانوں نے شکایت کی کہ دریائے نیل کے کنارے ہم نے کپاس کاشت کی جسے بے موسم کی بارش نے تباہ کر دیا تو اس نے کہا کہ تم اس کی جگہ اون کاشت کر لیتے اور وہ تباہ نہ ہوتی۔
ایک بزرگ نے جب اس حبشی خضیب کی یہ بات سنی تو کہا کہ اگر عقل کی بدولت رزق کی تقسیم ہوتی تو پھر بے خوف تو بھوکا ہی مر جاتا اللہ عزوجل بے وقوف کو عقلمند کی نسبت زیادہ دیتا ہے کہ عقلمند اسے دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔
رزق اور عہدے کی تقسیم اپنے کمال کی بدولت نہیں ہوتی بلکہ یہ لوح محفوظ پر لکھے گئے کہ مطابق ہے کیمیا اگر غصے میں مر جاتا ہے جب کہ وقوف ہےکو خزانہ مل جاتا ہے دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بد لحاظ اور کم عقل ترقی کرتا ہے اور عقلمند اور عزت کرنے والا ذلیل وہ رسوا ہو جاتا ہے۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ ہارون رشید کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ اس نے مصر پر قابض ہونے کے بعد وہاں اپنے ایک حبشی غلام کو حاکم آپ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ رزق اور عہدے کی تقسیم میں اپنا کوئی کمال نہیں دیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ فرعون کا تعلق مصر سے تھا اور یہ لوح محفوظ پر لکھے گئے کہ مطابق ہے نیز دنیا میں اکثر یہ دیکھا گیا۔
کہ بے وقوف اورجاہل ترقی کرتے ہیں جبکہ عقل مند ذلیل اور رسوا ہوتے ہیں لیکن دنیاوی مال و دولت کی کچھ حیثیت نہیں اگر کسی چیز کی حیثیت ہے تو وہ علم اور تقوی ہے اور آخرت کے لیے بہترین توشہ ہے دنیاوی مال و دولت سب فانی ہے اور نیک اعمال قبر میں انسان کی بہترین رفیق ہیں پس اس فانی دنیا میں رہ کر آخرت کی تیاری کرنی چاہیے اور فضولیات میں اپنا وقت برباد کرنے کے بجائے نیک اعمال کی کوشش کرتے رہنا چاہیےاس نے خدائی کا دعوی کیا تھا۔