رسول ملانے کے لیے ہی آئے ہیں
دنیا میں گردش کسی غرض کے بغیر نہیں ہے ما سوائے عاشقوں کے جسم و جان کے جو کہ صحیح معنوں میں ذات خداوندی کے عاشق ہوں جب کوئی جزو کا عاشق ہوتا ہے تو اس کا معشوق اپنے کل کی جانب جلدی سے ہی چلا جاتا ہے کیونکہ تمام ممکنات فنا ہو کر ذات ہدیت میں مل جاتے ہیں احمد نے جب سورج کی روشنی دیوار پر دیکھی تو سمجھا کہ یہ پرنور ہے اور وہ اس کا عاشق بن گیا وہ یہ نہ سمجھا کہ یہ تو آسمان کے سورج کا عکس ہے۔
جب وہ روشنی اپنی اصل سے جا ملی تو کالی دیوار اپنی جگہ پر موجود تھی مجاز کا عاشق تو اس شکاری کی مانند ہے جو سایہ کو پکڑ لے مگر سایہ حقیقت کب ہے شکار نے پرندے کے سائے کو مضبوطی سے تھام لیا لیکن درخت پر بیٹھا پرندہ اس کی اس بے وقوفی پر ہنسا جز پوری طرح کل سے جڑا ہوا نہیں ہے اس سے الگ ہے ورنہ رسولوں کو بھیجنے کی کیا حاجت تھی رسول ملانے کے لیے ہی تو آئے جب ایک ہی ہیں تو وہ کس چیز کو ملائیں گے۔
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ عاشق صحیح معنوں میں ذات خداوندی کے عاشق ہوتے ہیں جز پوری طرح کل سے جڑا ہوا نہیں ہے ورنہ رسولوں کو بھیجنے کی حاجت کیوں ہوتی؟