رنج وغم بھی اللہ عزوجل کے بھیجے ہوئے مہمان ہیں
ایک بی بی نے چنے ہانڈی میں ڈالے اور نیچے آگ جلا دی چنوں نے فریاد کرنی شروع کر دی کی پہلے تو تو ہمیں خرید کر لائی اور اب اس سخت گرمی میں ذلیل کر رہی ہے بی بی نے کہا: کہ تجھے یہ جوش دینا تیرے ہی فائدے میں ہے میں ایسا اس لیے کرتی ہوں کہ جوش کھا کر تو انسانوں کے غذا بن سکے اور چنے سے انسان بن جائے۔
حدیث قدسی کے الفاظ ہیں کہ اللہ عزوجل کی رحمت اس کے غضب سے پہلے ہے رحمت پہلے اس وجہ سے ہے کہ اس رحمت کی وجہ سے اس کی پرورش ہو کہ وہ امتحان کے قابل ہو سکے رحمت ہی کی وجہ سے جو گوشت گوشت بنا ہے اگر وہ نہ ہو تو عشق کس چیز کو کھلائے گا؟
اگر عشق کی بنیاد پر انسان پر مصائب کا نزول ہوتا ہے اور وہ ثابت قدم رہتا ہے تو پھر اللہ عزوجل کی عنایت و مہربانی اس کو قرب وصال کی بشارت دیتی ہے رنج و غم بھی اللہ عزوجل کے بھیجے ہوئے مہمان ہیں.
اور اگر ان کے ساتھ اچھا معاملہ روا رکھا اور ان پر صبر کیا تو وہ اس شاہ کے دربار میں جا کر تعریف کریں گے اور پھر شاہ تجھے انعام کا حقدار ٹھہرائے گا۔بی بی نے چنوں سے کہا! کی تم میری طرح شکر گزار ہو حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے پر امادہ ہو گئے تھے اور میں تجھے فنا کر رہی ہوں یہ فنا بظاہر ہے لیکن حقیقت میں یہ بقا ہے کیوں کی تو انسانی جان کر حصہ بنے گا چنوں کی حالت پہلے اچھی تھی مگر بعد میں پہلے سے زیادہ اچھی ہونے والی تھی۔
اب چنے ترقی کر کے حیوان کا جزو بن گئے اور انسانی اجسام کا حصہ بن کر افکار کی غذا بن گئے اور اعلی مقام تک پہنچ گئے حیوان نباتات سے خوراک حاصل کرتا ہے نباتات کی موت اس طرح اس کی ترقی کا باعث بن گئی۔
حسین بن منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا کہ اے یارو! مجھے قتل کر دو کہ میرے قتل ہونے میں ہی میری بقا ہے جب ثابت ہو گیا کہ موت ہی ترقی کا باعث ہے جس طرح اناج انسان کی غذا بن کر اس کا جزو بن جاتا ہے اس طرح بہترین اور قول فرشتوں کی غذا بن کر بلند مراتب حاصل کرتا ہے۔
انسانی ارواح کے قافلے عالم بالا سے دنیا میں کاروبار کے لیے اتے ہیں اور نفع و نقصان کمانے کے بعد واپس لوٹ جاتے ہیں اسی طرح اصل مقام عالم بالا ہی ہے اس لیے جب دنیا سے جانا ہے تو خوشی سے سرخرو ہو کر جایا جائے۔
بی بی نے چنوں سے کہا: کہ میں یہ تلخ باتیں تمہیں اس لیے کہتی ہوں کہ تمہاری یہ تلخی دور ہو جائے اس طرح جب انسان میں برداشت کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے تو وہ پختہ ہو کر شیری بن جاتا ہے جب چنوں پر ظاہر ہو گیا کہ مصائب تکمیل کا ذریعہ ہیں تو برداشت کرنے پر راضی ہو گئے۔
بی بی نے چنوں سے کہا! کہ جب میں جمادات سے ترقی کر رہی تھی تو کہتی تھی یہ ترقی اس واسطے ہے کہ میں انسان علم و صفت بن جاؤں اب جب کہ میں روح بن گئی ہوں تو اب روح حیوانی سے بلند مرتبہ پر پہنچنا چاہتی ہوں ترقی کے اس عمل سے یہ شبہ کی ان کے ذکر سے اللہ عزوجل کے ساتھ اتحاد ذاتی تک ترقی نہ سمجھ لی جائے اللہ عزوجل سے دعا کرو تاکہ تم صحیح مطلب جان سکو اور گمراہ نہ ہو۔
اللہ عزوجل سے اتحاد ذاتی کا عقیدہ گمراہی ہے جس طرح قرآن مجید سے کم عقل گمراہ ہوتے ہیں اسی طرح مثنوی سے بھی ہو سکتے ہیں اس میں قرآن مجید کا کوئی قصور نہیں بلکہ اس کی کم عقلی کا قصور ہے مسجد کا مہمان عالم آخرت کا طلبگار ہے جس طرح حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ تھے۔
ہو سکتا ہے کہ یہ ہوا ہو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب نمرود نے آگ میں ڈالا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آکر ان کی مدد کی خواہش ظاہر کی ہو انہوں نے کہا: کہ میری روح میں اب حیوانی نہیں رہی کہ ایک شعلے سے ختم ہو جائے اگر انسانی جان آتشیں شہوت اور آتشیں غضب و غصہ کا ایندھن نہ بنے تو وہ خوب پھلے پھولے خود بھی منور ہو اور دوسروں کو بھی منور کرے اس دنیا کی آگ کراہ آتشی کا پر تو ہے اور پر تو اور سایہ دونوں نہ پائیدار ہوتے ہیں اس طرح جان لو کہ جس طرح انسان کا قدر اور اس کا سایہ پر تو اور سایہ ہمیشہ اپنے اصل کی جانب لوٹتے ہیں۔
مجھے مثنوی پر اعتراضات پر عقلا کوئی رنج نہیں میں اعتراضات کا جواب نہیں دیتا مگر اس لیے دیتا ہوں کہ ان اعتراض کرنے والوں کے اعتراض سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کر دیں گے۔
حکیم سنائی غزنوی کا قول ہے کہ یہ لوگ نور معرفت سے محروم ہیں ان کی پہنچ صرف قرآن مجید کے الفاظ تک ہے اور یہ قرآن مجید کے مطلب و مفہوم سے نہ بلد ہیں۔
یہ متعارفین کہتے ہیں کہ مثنوی میں ابواب اور فصول قائم کر کے تصوف کے مراتب کا ذکر ہونا چاہیے تھا کہ سالک کے لیے ہر منزل اور مقام کی نشاندہی ہو جاتی یہ تو ایک بورک دھندا معلوم ہوتی ہے۔
جب اللہ عزوجل کی کتاب نازل ہوئی تو اس پر بھی لوگوں نے اسی طرح کے اعتراضات کیے تھے کہ میں نے پرانے قصے اور واقعات ہیں حضرت آدم علیہ السلام گندم شیطان اور سانپ کا ذکر ہے حضرت ہود حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آگ کے قصے ہیں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کنعان اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذبح ہونے کا واقعہ ہے حضرت جبرئیل علیہ السلام کعبہ اور ہاتھی والوں کا ذکر ہے.
حضرت یونس اور حضرت لوط علیہم السلام کی قوموں کا ذکر ہے حضرت مریم علیہ السلام اور کھجور حضرت زکریا حضرت یحیی علیہم السلام کا ذکر ہے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا ذکر ہے اور پانی کی تقسیم کا بیان ہے۔حضرت الیاس حضرت عزیز علیہم السلام کے قصے ہیں قارون کے زمین میں دھنس جانے کا بیان ہے حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر اور تیہ صحرا میں اسرائیلیوں کے قیام کا ذکر ہے حضرت موسی علیہ السلام اور کوہ طور درخت اور عصا کا بیان ہے.
حضرت ذوالقرنین حضرت عیسی حضرت خضر اور حضرت ارمیہ علیہم السلام کا ذکر ہے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے چاند کو دو ٹکڑے کرنے کا بیان ہے۔
یہ بیان اور باتیں سب کے علم میں ہیں اور وہ بیان کہاں ہیں جو عقول کو گم کرنے والے ہیں پس انہیں فرمایا گیا کہ تمہیں یہ آسان لگتی ہیں اگر تم لا سکتے ہو تو پھر اس جیسی ایک آیت لا کر دکھاؤ پس جن اور انسان دونوں اس کام میں لگ جاؤ اور اس جیسی ایک آیت بنا کر لاؤ۔
وجہ بیان
حضرت مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں ایک بی بی اور چنوں کا مکالمہ بیان کرتے ہوئے نہایت خوبصورتی کے ساتھ اپنی مثنوی پر لگنے والے اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ لوگوں نے قران مجید پر بھی اعتراضات کیے تھے اور پھر اللہ عزوجل نے ان کے اعتراضات کے جواب میں فرمایا کہ اگر تم اس جیسی ایک آیت بنا کر لا سکتے ہو تو لا کر دکھاؤ۔