رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے رحم دل اور با مروت تھے کہ کبھی کسی پر غصہ نہ فرماتے خصوصا اپنے ذاتی کام کے متعلق اگر کسی خادم یا رفیق سے اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تعمیل میں کوئی غلطی ہو جاتی تھی تو اپ بڑی فیاضی سے درگزر کرتے تھے اور اگر ملامت بھی کرتے تھے تو ایسے طریقے سے کہ جس کو ملامت کی جاتی اس کا دل بھی نہ دکھتا اور اثر بھی پورا ہوتا تھا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ جب حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کسی خادم پر ناراض ہوتے تھے تو یہ فرماتے تھے اگر مجھے روز قیامت میں بدلہ کا ڈرنا ہوتا تو میں تمہیں اس مسواک سے خوب ہی مارتا۔
خود حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم تھے اور بچپن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہتے تھے۔ ایک روز سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کسی کام کا حکم فرمایا۔ انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کام سے انکار کر دیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے۔ لیکن پھر میں خود ہی اپنے دل میں نادم ہوا اور اس کام کے انجام دینے کے واسطے روانہ ہو گیا۔ مسجد سے نکل کر گلی میں چند لڑکوں کو کھیلتے دیکھا اور بچکن کے اقتضاء سے ان کا کھیل دیکھنے لگا۔
میں اس طرف متوجہ تھا کہ اچانک پشت کی جانب سے کسی نے میری گردن پکڑ لی میں نے مڑ کر دیکھا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکھیں چار ہوتے ہی مسکرا کر فرمایا! انس کیا تو اب کام کرنے جا رہا ہے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کہنے کا مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ میں غرق ندامت میں غرق ہو گیا اور پھر عمر بھر کبھی اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سرتابی نہیں کی۔
مکہ والوں کی طرف سے مایوس ہو کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شہر سے نکلے اور مختلف قبائل کو دعوت اسلام دینے کے لیے منزل بمنزل پا پیادہ کوہ طائف پر جو مکہ سے شمال کی جانب 70 میل پر واقع ہے تشریف لے گئے وہاں پہنچ کر دعوت اسلام اور توحید کی منادی شروع فرما دی۔
طائف کے حکمران سردار اور اس کے بھائیوں نے اپنے غلاموں اور بازاری لڑکوں کو ترغیب دی کہ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دق کریں تکلیف دیں اور ہنسی مذاق اڑائیں۔ اس دفعہ ان بدمعاشوں نے اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس قدر کیچڑ اور پتھر پھینکے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک احاطہ کے اندر جا کر پناہ لی۔ ایک دفعہ جسم اطہر پر اتنے پتھر مارے کہ جسم سے خون جاری ہوا اور پائے مبارک کا جوتا خون سے جم کر پاؤں سے چمٹ گیا۔ اللہ اللہ کیا صبر و تحمل تھا۔
ایک دفعہ ایسی ضرب ائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش ہو گئے۔ حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ جو اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرا تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی پشت پر اٹھا کر بستی سے باہر لے گئے۔ پانی کا چشمہ رواں تھا۔ پانی کے چھینٹے منہ پر ڈالے تو ہوش آیا۔ اور وہاں سے واپس تشریف لے ائے مگر جوش و کرم اور رحمت کا یہ عالم تھا کہ بددعا کے بجائے زبان مبارک سے یہ فرمایا کہ اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو کیا ہوا امید ہے کہ ان کی اولاد ضرور کلمہ پڑھنے والی ہوگی۔
جنگ احد میں سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے اور چہرہ انور زخمی ہوا تو اصحاب پر یہ بات نہایت شاق گزری۔ انہوں نے عرض کیا یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپ کفار کے حق میں بددعا کیجئے فخر دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں بددعا کرنے کے لیے مبغوث نہیں ہوا ہوں بلکہ رحمت کے ساتھ بھیجا گیا ہوں۔ حق کی طرف بلانا میرا کام ہے نہ کہ بدعا کرنا۔ پھر دست مبارک اٹھا کر یوں دعا فرمائی اے اللہ میری قوم کو ہدایت فرما وہ مجھ کو پہچانتی نہیں۔