قرآن مجید کی شرط
اے عزیز! دل کا نور روح سے ہوتا ہے اے! کی تو شرم سے مست اور بے نیاز ہے اس روح کو مانگی ہوئی چیز نہ سمجھ جس وقت تیرے یہ ہاتھ پاؤں ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا اس وقت تیری روح کے بالوں پر بھی ہوں گے جو پرواز کریں گے جس وقت یہ حیوانی روح نہ رہے گی اس وقت کے لیے ضروری ہے کہ تو باقی رہنے والی روح کو زندہ رکھ۔
قرآن مجید کی یہ شرط ہے کہ جو شخص نیکی لایا اس کے معنی محض نیکی کرنا ہی نہیں بلکہ نیکی کو بحر حقیقت یعنی خدائی دربار میں پیش کرنا بھی ہے کیا تو جو ہر انسانیت رکھتا ہے؟ یا نرا گدھا ہے جب یہ چیزیں جن کا وجود دوسرے جہان میں نہیں ہے فنا ہو گئیں تو انہیں لے کر آگے کہاں جا سکے گا؟
یہ نماز و روزہ بھی ایسی ہی عرضی میں شمار ہیں یعنی دوسری جگہ منتقل نہیں ہوتے اور دو زمانوں میں باقی نہیں رہتے اسی لیے ناپید ہیں عورت سے نکاح کرنا غرض تھا جو فنا ہو گیا لیکن فرزند ہے جسے جوہر کہیں ہم سے بآامد ہو گیا کیمیا کا استعمال یعنی ترکیب غرض ہے اور جوہر سونا چاندی ہے جو کیمیا گری سے یار کو ملا پس بکری کی قربانی قرب حاصل کرنے کے لیے سبب بنے گی نہ کہ اس کے سایہ کی قربانی۔
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ قرآن مجید کی شرط ہے کہ جو شخص نیکی لایا اس کے معنی محض نے کی کرنا ہی نہیں بلکہ اس نیکی کو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں بھی پیش کرنا ہے۔