قضا آتی ہے تو آنکھ اندھی ہو جاتی ہے
ایک رات ایک بدو عورت نے اپنے شوہر سے کہا کہ ساری دنیا خوش ہے لیکن ہم غربت کی سختیاں برداشت کر رہے ہیں ہمارے پاس نہ ہی کھانے کو کچھ ہے اور نہ ہی پینے کو نہ پہننے کو کچھ اور نہ اڑنے کو ہماری یہ فقیری تو فقیروں کے لیے بھی ذلت کا باعث ہے ہم سے ہر اپنا پرایا سب گریزاں ہیں اگر کوئی مہمان ہمارے پاس آجائے تو میں رات کو سوتے وقت اس کی گودڑی اتار لوں ہم کب تک اس اس ذلت کو برداشت کریں گے
بدو فقیر نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو اور پیداوار کی کب تک جستجو کرے گی سمجھدار انسان کمی و بیشی پر غور نہیں کرتا کیونکہ یہ دونوں پانی کے بہاؤ کی مانند نکل جاتے ہیں چاہے پانی صاف ہو یا گدلا وہ ٹھہرنے والا نہیں اس دنیا میں ہزارہا جاندار ایسے ہیں جو بغیر تردد کے آرام سے گزر جاتے ہیں فاختہ درخت پر اللہ عزوجل کا شکر ادا کرتی ہے حالانکہ اس نے رات کا کچھ سامان نہیں کیا بلبل کہتی ہے کہ اے اللہ میں تجھ پر ہی بھروسہ کرتی ہوں مچھر سے لے کر ہاتھی تک سب اللہ عزوجل کا کنبہ ہیں اور وہ ان کی بہتر پرورش کرتا ہے یہ سب غم جو ہمارے سینوں میں پرورش پا رہے ہیں یہ ہماری ہستی کے غبار اور بگولے ہیں یہ جڑ کھودنے والے غم ہمارے لیے دراتی کے مانند ہیں اس طرح ہو گیا اس طرح ہو گیا یہ سب ہمارے وسواس ہیں
ہر غم و فکر موت کا ایک حصہ ہے اگر تم نے موت کو خود کے لیے آرام دہ بنا لیا تو جان لے کر اللہ عزوجل تیرے کل کو بھی آرام دہ بنا دے گا درد موت کے قاصد ہوتے ہیں قاصد سے منہ موڑو جو شخص خوشگوار زندگی بسر کرتا ہے وہ تلخی کی موت مرتا ہے جو شخص صرف اپنے جسم کی پرورش کرتا ہے وہ موت سے نہیں بچ سکتا
اے میری بیوی تو میرا جوڑا ہے اور جوڑے کو یکساں ہونا چاہیے جوتے اور جرابوں کے جوڑے کو دیکھ لے دونوں میں سے ایک اگر تنگ ہو تو وہ تیرے کسی کام کا نہیں کبھی شیر اور بھیڑیے کا بھی جوڑا بنا ہے میں قناعت کی طرف آتا ہوں تو برائی کی جانب کیوں جاتی ہے
عورت بولی کہ تو عزت کا خواہش مند ہے تو پھر تکبر کی باتیں کیوں کرتا ہے دنیا داری اور کر وفر کی باتیں کب تک تکبر دعوی غرور کو دل سے نکال دے تاکہ تو نجات پا سکے تکبر برا ہے مگر مفلسوں سے اور بھی برا ہے تیرا گھر مکڑی کے جالے کی طرح ہے اور تو دعوے کرتا ہے تو نے صرف قناعت کا نام ہی سیکھا ہے
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قناعت تو ایک خزانہ ہے تو مجھے بیوی نہ کہے اور اپنے شوہر ہونے کا دعوی دار نہ ہو میں انصاف کی بنیاد پر تیری بیوی ہوں نہ کی مکاری کی بنیاد پر تو خود کو مجھ سے زیادہ عقل مند سمجھتا ہے تو پھر مجھ جیسی کم عقل کو پسند کیوں کیا منتر پڑھنے والا دشمن کی طرح منتر پڑتا ہے لیکن سانپ اس پر منتر پڑتا ہے منتر پڑھنے والا اپنے کام کی حرص کی وجہ سے سانپ کے منتر کو محسوس نہیں کرتا سانپ کہتا ہے کہ تو مجھے اللہ عزوجل کے نام پر پھنساتا ہے لیکن اللہ عزوجل کا یہ نام ہی مجھے انصاف دلائے گا
بدو فقیر بولا اے میری بیوی فکر فخر کا باعث ہے اور کسی میں کوئی عیب ہو تو اسے ننگا نہیں کرنا چاہیے درویشی کا یہ معاملہ تیری فہم سے بالاتر ہے درویشی دنیاوی کاموں سے جدا ہونے کا نام ہے درویشوں کے لیے اللہ عزوجل کی جانب سے ہر وقت بخشش ہے یہ لوگ ملک و مال کے علاوہ اللہ عزوجل سے بھاری روزی پاتے ہیں اللہ عزوجل عدل کرنے والا ہے اور عادل کمزوریوں پر ظلم نہیں کیا کرتے مجھے لوگوں سے کسی قسم کا کوئی لالچ نہیں اور میرے دل میں قرات کا ایک جہان آباد ہے
عورت نے مرد کہ غصے کو دیکھا تو رونے لگی اور یہ بھی اس کا ایک جال تھا وہ بولی کہ میں تمہاری بیوی ہوں میرا سب کچھ تیری ملکیت ہے اگر فقیری سے میرا دل کھڑا ہے تو صرف تیرے لیے کہ تو میری زندگی کا ساتھی ہے میں نہیں چاہتی کہ تو بے سروسامان رہے میں تو تجھ پر قربان ہونا چاہتی ہوں میں سونے چاندی پر خاک ڈالتی ہوں اور میرے دل کا سکون تو صرف تو ہی ہے تو وہ وقت یاد کر کے جب میں بت تھی اور تو میرا پجاری تھا اب میں تیری مرضی کے بغیر کچھ نہیں کروں گی
تو میرے ساتھ جدائی کی باتیں نہ کر میں جانتی ہوں کہ میرا عذر تیرے اندر موجود ہے اور تیری بلندی اخلاق ہے اس بدوی عورت کے رونے سے اس بدوئی فقیر کا دل پگھل گیا اس کی بارش سے ایک بجلی چمکی اور مرد کے دل پر گری قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ لوگوں کو مرغوب چیزوں یعنی بیویوں کے دل لگی اچھی معلوم ہوتی ہے حوا کو اسی لیے پیدا کیا کہ آدم علیہ السلام کو سکون حاصل ہو وہ ذات جس کی گفتگو سے عالم مست ہو جاتا ہے فرماتی تھی کہ اے حمیرا رضی اللہ تعالی عنہا مجھ سے بات کرو یہ بات مسلم ہے کہ ہر گھومنے والے کے ساتھ گھمانے والا ہے
بدو فقیر اس گفتگو سے ایسا شرمندہ ہوا جیسے ظالم مرتے وقت اپنے ظلم سے ہوتا ہے درحقیقت جب قضا اتی ہے تو عقل اور سمجھ جاتی ہے اللہ عزوجل کے سوائے قضا کو کوئی نہیں جانتا متقیوں کے امام حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے کہ قضا آتی ہے تو آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں جب قضا گزر جاتی ہے تو انسان شرمندگی میں خود کو کاٹتا ہے
بدو فقیر اور اس کی بیوی کے اس قصے کو نفس اور عقل کی مثال جانو اس عالم سفلی میں نفس اور عقل نیک و بد کی صورت میں موجود ہیں نفس عورت کی طرح تدبیر کے در پہ ہے کبھی عاجزی کرتا ہے اور کبھی برائی کا خواہش مند ہے عقل ان باتوں سے ناواقف ہے اس کے دماغ میں اللہ عزوجل کے غم کے سوا کچھ نہیں ہے اس دنیا میں ظاہر و باطن دونوں کا موجود ہونا لازمی ہے اگر صرف باطن کو لیں تو دنیا بیکار ہو جاتی ہے اور شریعت کا وجود نہ رہے اور اگر محبت اور فکر باطنی معاملہ ہوتا تو پھر نماز اور روزے کی کوئی ضرورت باقی نہ رہتی اللہ عزوجل سے محبت کے ظاہری اظہار کے لیے ان چیزوں کا ہونا ضروری ہے
دوستی ہونے کے باوجود دوست ایک دوسرے کو تحفے دیتے ہیں جو دوستی کے اظہار کے لیے ہوتے ہیں چھپی ہوئی محبتوں کے گواہ ظاہری افعال ہوتے ہیں ظاہری افعال والے گواہوں میں کوئی شراب سے مست ہوتا ہے کوئی چھاچ دے چھاچو والے کی مستی بناوٹی ہوتی ہے ریاکار بظاہر تو نماز روزے میں پوری جدوجہد کرتا نظر آتا ہے تاکہ گمان ہو کی دوستی میں مست ہے جب تم حقیقت دیکھو گے تو یہ عین ریاکاری ہوگی ظاہری افعال میں تو اس محبت کی علامت کے رہبر ہوتے ہیں رہبر کبھی صحیح بھی ہوتا ہے اور کبھی غلط بھی کبھی برگزیدہ بھی ہوتا ہے اور کبھی ناکارہ بھی
اے اللہ ہمیں وہ تمیز عطا فرما جو ہمیں صحیح اور غلط کا فرق سمجھا دے اے اللہ تو جانتا ہے کہ یہ تمیز کیسے حاصل ہو سکتی ہے جس کے لیے اللہ عزوجل کا نور نے امام بن جاتا ہے وہ اثار اور اسباب کا غلام نہیں رہتا جب باطن میں محبت شعلہ زن ہوتی ہے تو پھر اس کی محبت قوی ہو جاتی ہے اور عصر سے اسے فارغ کر دیتی ہے
محبت کا ظہور اعمال کی صورت میں ہوتا ہے لیکن محبت اور علامت میں بہت حد تک مناسبت بھی ہے اور دونوں ایک دوسرے سے جدا بھی ہیں درخت کا سبزہ پانی کے وجود کو ظاہر کرتا ہے حالانکہ پانی اور درخت حقیقت میں دو جدا گانا حقائق ہیں معاملات کی اگر حقیقت پر نظر دوڑائی جائے تو ایک دوسرے سے بہت دور ہیں لیکن باطن میں وہ ایک دوسرے سے مربوط ہیں دانہ تین مختلف حقائق پانی مٹی اور صورت سے ملتا ہے تو وہ درخت بنتا ہے
بدو فقیر نے بیوی سے کہا کہ تو جو کہے گی میں تیرا حکم بجا لاؤں گا جو اچھائی اور برائی آئے گی میں اسے نظر انداز کر دوں گا میں تجھ میں فنا ہو جاؤں گا کیونکہ میں تیرا عاشق ہوں عاشق کو اس کی محبت اندھا بنا دیتی ہے وہ بہرا ہو جاتا ہے
عورت نے کہا کہ کہیں تیری یہ بات چالاکی پر مبنی تو نہیں کہ میرا راز کھل جائے
بدو فقیر نے کہا کہ اللہ عزوجل دلوں کے بھید سے خوب واقف ہے جس نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا فرمایا اور برگزیدہ بنایا اس جسم میں تمام علوم بھی بھر دیے جو روح محفوظ میں موجود تھے اب تک کہ حالات سے واقف کر دیا اور اپنے اسماء کی تعلیم دے کر سب کچھ پڑھا دیا اس علم کی تعلیم نے فرشتوں کو مدہوش کر دیا اور وہ کہنے لگے کہ پاک ہے وہ ذات جس کا علم ہر شے پر محیط ہے
جو ان کے شفاعت حضرت آدم علیہ السلام کو ہوئے وہ ان کو اسمانوں پر رہ کر حاصل نہ ہوتے ایک جان میں وہ کچھ سما گیا جس جس کے لیے ساتوں زمین اور آسمان تنگ تھے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے کہ میں اوپر سے نیچے تک کہیں نہیں سما سکتا نہ ہی زمین و عرش میں سما سکتا ہوں لیکن حیرانگی ہے مومن کے دل میں وہ سما جاتا ہوں اگر تم مجھے ڈھونڈ نہ چاہتے ہو تو اہل اللہ کے دلوں میں تلاش کرو تم میرے بندوں میں داخل ہو جاؤ تو پا لو گے
اے متقی میرے دیدار کی جنت کو دیکھ عرش نے باوجود اپنی وسعت کے اور اپنے نور کے اسے دیکھا تو بے قرار ہو گیا عرش کی بڑائی اپنی جگہ لیکن صورت کیا چیز ہے جب کہ ہمارا خمیر آسمان سے ہے اور یہ نور تاریکیوں کے ساتھ کیسے زندہ رہ سکتا ہے
اب ہم جان گئے کہ یہ آدم علیہ السلام سے حاصل کیا گیا اور تیرے پاک نور کو اس جگہ چمکایا ہے اس سے قبل جب اللہ عزوجل نے ہمیں زمین سے منتقل ہونے کا حکم دیا تو وہ ہم پر گرا گزرا ہم زمین پر تھے اور زمین سے غافل تھے اس خزانے سے غافل تھے جو اس زمین میں موجود تھا ہم نے اللہ سے کہا کہ ہم تیری تسبیح کے لیے کافی ہیں یہ انسان یہاں فتنہ فساد پھیلائیں گے اللہ عزوجل کے حکم نے ہمیں بولنے کا موقع دیا کہ اللہ عزوجل کی رحمت اور اس کے غضب پر حاوی ہے اس نے ہمارے گرفت نہیں کی تا کی بعد میں کسی کو آدم علیہ السلام پر اعتراض نہ ہو سیکڑوں والدین کی بربادی اللہ عزوجل کی بربادی کے آگے حج ہے ان والدین کے حکم اللہ عزوجل کے حکم کے آگے ایسے ہی ہیں جیسے سمندر کے آگے جھاگ جو کہ آتی جاتی رہتی ہے مگر سمندر اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے
بدو فقیر نے بیوی سے پوچھا کہ اب تو بتاؤ کی میں روزی کیسے حاصل کروں
عورت بولی کی بغداد میں اللہ عزوجل کا ایک خلیفہ حکومت کر رہا ہے اگر تو کسی طرح اسے وابستہ ہو جائے تو بادشاہ بن جائے گا نصیبہ ور لوگوں کی مسابحت کیمیا ہوتی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر مبارک جب حضرت سیدنا ابوبکر صدیق پر پڑی تو تصدیق سے صدیق بن گئے
بدو فقیر نے پوچھا کہ بادشاہ کے ہاں مقبول کیسے ہوا جاتا ہے اور میں کس طرح بادشاہ تک پہنچوں گا کوئی تعلق یا تدبیر چاہیے کیونکہ پیشہ بغیر اوزار کے نہیں چل سکتا؟
عورت بولی کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ چلیے آؤ اور یہ کہہ کر بغیر حلیہ جانے کی شرم کو توڑ دیا جب شاہ کرم میدان میں نکلتا ہے تو بے سر و سامانی اس کا ذریعہ بن جاتی ہے عاجزی کے ساتھ سوال کرنے میں بڑی کامیابی ہے
بدو فقیر بولا کہ میں بے سروسامانی پیدا کیے بغیر اس کا خیال کیسے کر سکتا ہوں کیونکہ گفتگو قاضی القضا کے سامنے مجروح ہو جاتی ہے وہاں باطنی گواہی درکار ہے سچائی سوال کرنے والے کے حال کی گواہ ہوتی ہے اور وہاں اخلاص کی گواہی درکار ہے
عورت بولی کی سچائی یہ ہے کہ اپنے وجود سے اپنی کوشش کو جدا کر دے اس مٹکے میں ہمارا بارش کا پانی ہے جو میرا کل سرمایہ ہے اسے بادشاہ کے لیے تحفہ قرار دے دے اسے کہنا کہ ہمارے پاس اس کے سوا کچھ نہیں اگرچہ اس کا خزانہ جواہرات سے بھرا ہوا ہے لیکن اس کے پاس ایسا پانی نہیں ہوگا یہ مٹکا کیا ہے ہمارا بدن ہے اور اس میں موجود پانی ہمارے نمکین حواس ہیں اے اللہ میرے اس مٹکے کو مہربانی فرما کر قبول کر لے
قرآن مجید میں ہے کہ اللہ عزوجل نے مومنین سے ان کی جانیں اور مال جنت کے عوض خرید لیے ہیں اس مٹکے کے پاس حواس اس کی ٹوٹیاں ہیں اپنے حواس کو پاک کر کے اس کوزے کو راستہ سمندر کی جانب کر لیتا کہ کوزہ سمندر کی خصلت اختیار کر لے
یہ تحفہ جب تو بادشاہ کے پاس لے کر جائے گا تو وہ اس کو پاک دیکھے گا اور ہو سکتا ہے کہ بادشاہ اس کا خریدار بن جائے ایسا ہو گیا تو اس کا پانی لا انتہا ہو جائے گا تو اپنی نفسانی خواہشات کو قابو میں رکھ
بدو اپنے تحفے پر فخر کر رہا تھا کہ بادشاہوں کے لائق یہی تحفہ درست ہے اس کو معلوم نہ تھا کہ بغداد کے درمیان ایک ایسا دجلہ دریا بہتا ہے تو اپنا مٹکہ بادشاہ کی خدمت میں لے جا پھر اللہ عزوجل کی قدرت کا نظارہ کر اس طرح ہماری معلومات اور احساسات اس صاف سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ ہے یہ معلومات اس ذات سے حاصل کر جس کے پاس لوح محفوظ ہے
بدو فقیر نے کہا کہ اس کوزے کو نمدے میں سیدھے تا کی بادشاہ اس تحفے سے اپنا روزہ افطار کرے شہری لوگ نمکین پانی پینے کی وجہ سے اکثر بیمار رہتے ہیں تیری جگہ کھاری پانی کا چشمہ ہے تو جیوں اور فرات کے پانی کی صفائی کو کیا جانے تو اس فانی شرائع سے نہیں چھوٹا تو سوا اور سکر اور اس بات کو کیا جانے
بدو فقیر نے ڈھیلیا اٹھائی اور سفر پر روانہ ہو گیا وہ چلتا رہا اور زمانے کے مصائب سے ٹھلیا کو پہنچنے والے نقصان سے پریشان تھا
اس کی عورت نماز میں کہہ رہی تھی کہ اے اللہ اسے سلامت رکھ ہمارے پانی کو کمینوں سے محفوظ رکھ اس موتی کی حفاظت فرما کہ اس موتی کے دشمن ہزاروں ہیں
بدو فقیر جب دارالخلفاء پہنچا تو اس نے انعامات سے بھرا ہوا ایک دریا دیکھا ہر جانب سے ضرورت مند اس در سے خلات اور عطا پا رہے تھے کافر مومن اچھے برے انسان سے لے کر چیونٹی تک اہل زاہد جواہر میں لدے ہوئے تھے اور اہل باطن نے حقیقت کا سمندر پایا تھا ہر جانب سے آواز اتی تھی کہ اے سائل کیونکہ سخاوت کو سائل کی ضرورت ہے سخی سائلوں کا محتاج ہوتا ہے
وہ بدو فقیر جب دارالخلفاء پہنچا تو نقیب اس کے پاس آئے انہوں نے مہربانی سے گلاب اس کے چہرے پر چھڑکا اور بغیر کسی قسم کی گفتگو کیے اس کی حاجت سمجھ گئے انہوں نے پوچھا اے سردار تو کہاں سے آیا ہے
اس بدو فقیر نے کہا کہ تو میرے لیے ذریعہ معاش مہیا کر دو تو میں سردار ہوں ورنہ میری کچھ حقیقت نہیں تم سب مجھے سردار نظر آتے ہو اور تمہارا ایک دیدار بہت سے دیدار ہیں اے نقیب تم سب اللہ عزوجل کے نور سے دیکھتے ہو اس کے پاس سے میرے لیے کوئی انعام لائے ہوتا کہ تم مجھ پر اپنی کیمیا اثر نگاہیں ڈالو میں بہت دور جنگل سے بادشاہ کی مہربانی کی امید پر یہاں آیا ہوں کیونکہ اس کی مہربانی کی خوشبو کی وجہ سے ریت کے ذروں میں جان پڑ گئی
میں یہاں دینار لینے آیا ہوں لیکن دیدار نے مجھے مست کر دیا ہے میں ایک معمولی مقصد لے کر آیا تھا لیکن میرے ساتھ تو ایسا ہوا جیسے بدوئی نے کنویں سے پانی نکالا تو حضرت یوسف علیہ السلام کے دیدار سے مشرف ہو گیا حضرت موسی علیہ السلام معمولی آگ لینے گئے تو وہ چیز حاصل کر لی جو آگ سے جدا کر دے حضرت عیسی علیہ السلام دشمنوں کے نرغے سے خود دے تو چوتھے آسمان پر پہنچ گئے حضرت آدم علیہ السلام نے گیہوں کی جانب ہاتھ بڑھایا تو ان کا وجود انسان کا گچھا بن گیا
جن سے انبیاء علیہم السلام پیدا ہوئے بعض دانہ کھانے کے لیے جال میں پھنسا تو اس کو بادشاہ کی کلائی پر جگہ مل گئی حضرت سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کے لیے گرفتار ہو کر مسلمان ہو گئے تو ان کی نسلیں کو بادشاہت مل گئی حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لیے نکلے اور شریعت نے انہیں امیر المومنین بنا دیا
میں بھی اس در پر ایک چیز کا طالب بن کر آیا ہوں میں پانی کا تحفہ لایا ہوں اور اسے بادشاہ تک پہنچانا چاہتا ہوں روٹی نے انسان کو جنت سے نکالا لیکن مجھے روٹی نے جنت سے وابستہ کر دیا اب میں اس آسمان جیسے در کا طواف کرتا ہوں کیونکہ میں روحانی دولت سے مالا مال ہو کر دنیا سے بے نیاز ہو چکا ہوں
بدو فقیر نے اپنی پانی کی ٹھلیاں نقیبوں کو پیش کی اور اس طرح اس دریا میں خدمت کا بیج بو دیا
بدو فقیر بولا کہ میرا یہ تحفہ بادشاہ کی خدمت میں پیش کر دو بارش کا میٹھا پانی ہے جو میں نے گڈھے میں جمع کیا تھا نقیبوں نے اس کی بات سنی تو ہنس دیے لیکن انہوں نے اس تحفے کو دل و جان سے قبول کیا کیونکہ بادشاہ کی مہربانی کا اثر اس کا خدام پر بھی ظاہر ہوتا ہے بادشاہ اچھا ہوگا تو اس کے خدا بھی اچھے ہوں گے
بادشاہ کو حوض اور اس کے خدام کو ٹوٹیاں جانو چونکہ پانی ایک ہی حوض سے آتا ہے تو ہر ٹوٹی کا پانی خوش ذائقہ ہوتا ہے اگر حوض خاری اور ناپاک ہوگا تو ہر ٹوٹی سے پانی بھی ویسا ہی نکلے گا کیونکہ وہ حوض سے وابستہ ہے روح چونکی پورے بدن پر حاکم ہے اور اس عالم کی کوئی چیز نہیں اور اس دنیا کے اعتبار سے وہ بے وطن ہے اس طرح روح کو بدن سے وہی نسبت ہے جو بادشاہ کو رعایہ سے ہے
پاک نیت پاک نصب عقل کی لطافت پورے بدن کو مہذب بنا دیتی ہے اور اس دریا کی لطافت کو دیکھ جو کوثر کی مانند ہے اور اس کے سنگریز سب موتی اور گوہر ہیں جس طرح رعایہ بادشاہ کے اوصاف کو قبول کرتی ہے اور شاگرد اپنے استاد کے اوصاف کو اپناتا ہے اسی طرح وہ استاد جو راہ خدا میں محفو ہے اس کے شاگرد بھی راہ خدا میں محبوب ہوں گے اور علم کی تمام اقسام میں مرنے کے بعد اخرت کے راستے کا سامان فکر ہی ہے
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں ایک بدو فقیر اور اس کی بیوی کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قضا آتی ہے تو آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں اور جب تک انسان اپنے بدن کو ظاہری نجاست سے پاک نہیں کرے گا اس کہتے ہیں کہ روح ہرگز پاک نہ ہوگی