قضا آتی ہے تو اآکھ اندھی ہو جاتی ہے

قضا آتی ہے تو آنکھ اندھی ہو جاتی ہے

ایک رات ایک بدو عورت نے اپنے شوہر سے کہا کہ ساری دنیا خوش ہے لیکن ہم غربت کی سختیاں برداشت کر رہے ہیں ہمارے پاس نہ ہی کھانے کو کچھ ہے اور نہ ہی پینے کو نہ پہننے کو کچھ اور نہ اڑنے کو ہماری یہ فقیری تو فقیروں کے لیے بھی ذلت کا باعث ہے ہم سے ہر اپنا پرایا سب گریزاں ہیں اگر کوئی مہمان ہمارے پاس آجائے تو میں رات کو سوتے وقت اس کی گودڑی اتار لوں ہم کب تک اس اس ذلت کو برداشت کریں گے
بدو فقیر نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو اور پیداوار کی کب تک جستجو کرے گی سمجھدار انسان کمی و بیشی پر غور نہیں کرتا کیونکہ یہ دونوں پانی کے بہاؤ کی مانند نکل جاتے ہیں چاہے پانی صاف ہو یا گدلا وہ ٹھہرنے والا نہیں اس دنیا میں ہزارہا جاندار ایسے ہیں جو بغیر تردد کے آرام سے گزر جاتے ہیں فاختہ درخت پر اللہ عزوجل کا شکر ادا کرتی ہے حالانکہ اس نے رات کا کچھ سامان نہیں کیا بلبل کہتی ہے کہ اے اللہ میں تجھ پر ہی بھروسہ کرتی ہوں مچھر سے لے کر ہاتھی تک سب اللہ عزوجل کا کنبہ ہیں اور وہ ان کی بہتر پرورش کرتا ہے یہ سب غم جو ہمارے سینوں میں پرورش پا رہے ہیں یہ ہماری ہستی کے غبار اور بگولے ہیں یہ جڑ کھودنے والے غم ہمارے لیے دراتی کے مانند ہیں اس طرح ہو گیا اس طرح ہو گیا یہ سب ہمارے وسواس ہیں
ہر غم و فکر موت کا ایک حصہ ہے اگر تم نے موت کو خود کے لیے آرام دہ بنا لیا تو جان لے کر اللہ عزوجل تیرے کل کو بھی آرام دہ بنا دے گا درد موت کے قاصد ہوتے ہیں قاصد سے منہ موڑو جو شخص خوشگوار زندگی بسر کرتا ہے وہ تلخی کی موت مرتا ہے جو شخص صرف اپنے جسم کی پرورش کرتا ہے وہ موت سے نہیں بچ سکتا
اے میری بیوی تو میرا جوڑا ہے اور جوڑے کو یکساں ہونا چاہیے جوتے اور جرابوں کے جوڑے کو دیکھ لے دونوں میں سے ایک اگر تنگ ہو تو وہ تیرے کسی کام کا نہیں کبھی شیر اور بھیڑیے کا بھی جوڑا بنا ہے میں قناعت کی طرف آتا ہوں تو برائی کی جانب کیوں جاتی ہے
عورت بولی کہ تو عزت کا خواہش مند ہے تو پھر تکبر کی باتیں کیوں کرتا ہے دنیا داری اور کر وفر کی باتیں کب تک تکبر دعوی غرور کو دل سے نکال دے تاکہ تو نجات پا سکے تکبر برا ہے مگر مفلسوں سے اور بھی برا ہے تیرا گھر مکڑی کے جالے کی طرح ہے اور تو دعوے کرتا ہے تو نے صرف قناعت کا نام ہی سیکھا ہے
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قناعت تو ایک خزانہ ہے تو مجھے بیوی نہ کہے اور اپنے شوہر ہونے کا دعوی دار نہ ہو میں انصاف کیقضا آتی ہے تو آنکھ اندھی ہو جاتی ہے بنیاد پر تیری بیوی ہوں نہ کی مکاری کی بنیاد پر تو خود کو مجھ سے زیادہ عقل مند سمجھتا ہے تو پھر مجھ جیسی کم عقل کو پسند کیوں کیا منتر پڑھنے والا دشمن کی طرح منتر پڑتا ہے لیکن سانپ اس پر منتر پڑتا ہے منتر پڑھنے والا اپنے کام کی حرص کی وجہ سے سانپ کے منتر کو محسوس نہیں کرتا سانپ کہتا ہے کہ تو مجھے اللہ عزوجل کے نام پر پھنساتا ہے لیکن اللہ عزوجل کا یہ نام ہی مجھے انصاف دلائے گا
بدو فقیر بولا اے میری بیوی فکر فخر کا باعث ہے اور کسی میں کوئی عیب ہو تو اسے ننگا نہیں کرنا چاہیے درویشی کا یہ معاملہ تیری فہم سے بالاتر ہے درویشی دنیاوی کاموں سے جدا ہونے کا نام ہے درویشوں کے لیے اللہ عزوجل کی جانب سے ہر وقت بخشش ہے یہ لوگ ملک و مال کے علاوہ اللہ عزوجل سے بھاری روزی پاتے ہیں اللہ عزوجل عدل کرنے والا ہے اور عادل کمزوریوں پر ظلم نہیں کیا کرتے مجھے لوگوں سے کسی قسم کا کوئی لالچ نہیں اور میرے دل میں قرات کا ایک جہان آباد ہے
عورت نے مرد کہ غصے کو دیکھا تو رونے لگی اور یہ بھی اس کا ایک جال تھا وہ بولی کہ میں تمہاری بیوی ہوں میرا سب کچھ تیری ملکیت ہے اگر فقیری سے میرا دل کھڑا ہے تو صرف تیرے لیے کہ تو میری زندگی کا ساتھی ہے میں نہیں چاہتی کہ تو بے سروسامان رہے میں تو تجھ پر قربان ہونا چاہتی ہوں میں سونے چاندی پر خاک ڈالتی ہوں اور میرے دل کا سکون تو صرف تو ہی ہے تو وہ وقت یاد کر کے جب میں بت تھی اور تو میرا پجاری تھا اب میں تیری مرضی کے بغیر کچھ نہیں کروں گی
تو میرے ساتھ جدائی کی باتیں نہ کر میں جانتی ہوں کہ میرا عذر تیرے اندر موجود ہے اور تیری بلندی اخلاق ہے اس بدوی عورت کے رونے سے اس بدوئی فقیر کا دل پگھل گیا اس کی بارش سے ایک بجلی چمکی اور مرد کے دل پر گری قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ لوگوں کو مرغوب چیزوں یعنی بیویوں کے دل لگی اچھی معلوم ہوتی ہے حوا کو اسی لیے پیدا کیا کہ آدم علیہ السلام کو سکون حاصل ہو وہ ذات جس کی گفتگو سے عالم مست ہو جاتا ہے فرماتی تھی کہ اے حمیرا رضی اللہ تعالی عنہا مجھ سے بات کرو یہ بات مسلم ہے کہ ہر گھومنے والے کے ساتھ گھمانے والا ہے
بدو فقیر اس گفتگو سے ایسا شرمندہ ہوا جیسے ظالم مرتے وقت اپنے ظلم سے ہوتا ہے درحقیقت جب قضا اتی ہے تو عقل اور سمجھ جاتی ہے اللہ عزوجل کے سوائے قضا کو کوئی نہیں جانتا متقیوں کے امام حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے کہ قضا آتی ہے تو آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں جب قضا گزر جاتی ہے تو انسان شرمندگی میں خود کو کاٹتا ہے
بدو فقیر اور اس کی بیوی کے اس قصے کو نفس اور عقل کی مثال جانو اس عالم سفلی میں نفس اور عقل نیک و بد کی صورت میں موجود ہیں نفس عورت کی طرح تدبیر کے در پہ ہے کبھی عاجزی کرتا ہے اور کبھی برائی کا خواہش مند ہے عقل ان باتوں سے ناواقف ہے اس کے دماغ میں اللہ عزوجل کے غم کے سوا کچھ نہیں ہے اس دنیا میں ظاہر و باطن دونوں کا موجود ہونا لازمی ہے اگر صرف باطن کو لیں تو دنیا بیکار ہو جاتی ہے اور شریعت کا وجود نہ رہے اور اگر محبت اور فکر باطنی معاملہ ہوتا تو پھر نماز اور روزے کی کوئی ضرورت باقی نہ رہتی اللہ عزوجل سے محبت کے ظاہری اظہار کے لیے ان چیزوں کا ہونا ضروری ہے
دوستی ہونے کے باوجود دوست ایک دوسرے کو تحفے دیتے ہیں جو دوستی کے اظہار کے لیے ہوتے ہیں چھپی ہوئی محبتوں کے گواہ ظاہری افعال ہوتےqaza aati hai to aankh andhi ho jaati hai ہیں ظاہری افعال والے گواہوں میں کوئی شراب سے مست ہوتا ہے کوئی چھاچ دے چھاچو والے کی مستی بناوٹی ہوتی ہے ریاکار بظاہر تو نماز روزے میں پوری جدوجہد کرتا نظر آتا ہے تاکہ گمان ہو کی دوستی میں مست ہے جب تم حقیقت دیکھو گے تو یہ عین ریاکاری ہوگی ظاہری افعال میں تو اس محبت کی علامت کے رہبر ہوتے ہیں رہبر کبھی صحیح بھی ہوتا ہے اور کبھی غلط بھی کبھی برگزیدہ بھی ہوتا ہے اور کبھی ناکارہ بھی
اے اللہ ہمیں وہ تمیز عطا فرما جو ہمیں صحیح اور غلط کا فرق سمجھا دے اے اللہ تو جانتا ہے کہ یہ تمیز کیسے حاصل ہو سکتی ہے جس کے لیے اللہ عزوجل کا نور نے امام بن جاتا ہے وہ اثار اور اسباب کا غلام نہیں رہتا جب باطن میں محبت شعلہ زن ہوتی ہے تو پھر اس کی محبت قوی ہو جاتی ہے اور عصر سے اسے فارغ کر دیتی ہے
محبت کا ظہور اعمال کی صورت میں ہوتا ہے لیکن محبت اور علامت میں بہت حد تک مناسبت بھی ہے اور دونوں ایک دوسرے سے جدا بھی ہیں درخت کا سبزہ پانی کے وجود کو ظاہر کرتا ہے حالانکہ پانی اور درخت حقیقت میں دو جدا گانا حقائق ہیں معاملات کی اگر حقیقت پر نظر دوڑائی جائے تو ایک دوسرے سے بہت دور ہیں لیکن باطن میں وہ ایک دوسرے سے مربوط ہیں دانہ تین مختلف حقائق پانی مٹی اور صورت سے ملتا ہے تو وہ درخت بنتا ہے
بدو فقیر نے بیوی سے کہا کہ تو جو کہے گی میں تیرا حکم بجا لاؤں گا جو اچھائی اور برائی آئے گی میں اسے نظر انداز کر دوں گا میں تجھ میں فنا ہو جاؤں گا کیونکہ میں تیرا عاشق ہوں عاشق کو اس کی محبت اندھا بنا دیتی ہے وہ بہرا ہو جاتا ہے
عورت نے کہا کہ کہیں تیری یہ بات چالاکی پر مبنی تو نہیں کہ میرا راز کھل جائے
بدو فقیر نے کہا کہ اللہ عزوجل دلوں کے بھید سے خوب واقف ہے جس نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا فرمایا اور برگزیدہ بنایا اس جسم میں تمام علوم بھی بھر دیے جو روح محفوظ میں موجود تھے اب تک کہ حالات سے واقف کر دیا اور اپنے اسماء کی تعلیم دے کر سب کچھ پڑھا دیا اس علم کی تعلیم نے فرشتوں کو مدہوش کر دیا اور وہ کہنے لگے کہ پاک ہے وہ ذات جس کا علم ہر شے پر محیط ہے
جو ان کے شفاعت حضرت آدم علیہ السلام کو ہوئے وہ ان کو اسمانوں پر رہ کر حاصل نہ ہوتے ایک جان میں وہ کچھ سما گیا جس جس کے لیے ساتوں زمین اور آسمان تنگ تھے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے کہ میں اوپر سے نیچے تک کہیں نہیں سما سکتا نہ ہی زمین و عرش میں سما سکتا ہوں لیکن حیرانگی ہے مومن کے دل میں وہ سما جاتا ہوں اگر تم مجھے ڈھونڈ نہ چاہتے ہو تو اہل اللہ کے دلوں میں تلاش کرو تم میرے بندوں میں داخل ہو جاؤ تو پا لو گے
اے متقی میرے دیدار کی جنت کو دیکھ عرش نے باوجود اپنی وسعت کے اور اپنے نور کے اسے دیکھا تو بے قرار ہو گیا عرش کی بڑائی اپنی جگہ لیکن صورت کیا چیز ہے جب کہ ہمارا خمیر آسمان سے ہے اور یہ نور تاریکیوں کے ساتھ کیسے زندہ رہ سکتا ہے
اب ہم جان گئے کہ یہ آدم علیہ السلام سے حاصل کیا گیا اور تیرے پاک نور کو اس جگہ چمکایا ہے اس سے قبل جب اللہ عزوجل نے ہمیں زمین سے منتقل ہونے کا حکم دیا تو وہ ہم پر گرا گزرا ہم زمین پر تھے اور زمین سے غافل تھے اس خزانے سے غافل تھے جو اس زمین میں موجود تھا ہم نے اللہ سے کہا کہ ہم تیری تسبیح کے لیے کافی ہیں یہ انسان یہاں فتنہ فساد پھیلائیں گے اللہ عزوجل کے حکم نے ہمیں بولنے کا موقع دیا کہ اللہ عزوجل کی رحمت اور اس کے غضب پر حاوی ہے اس نے ہمارے گرفت نہیں کی تا کی بعد میں کسی کو آدم علیہ السلام پر اعتراض نہ ہو سیکڑوں والدین کی بربادی اللہ عزوجل کی بربادی کے آگے حج ہے ان والدین کے حکم اللہ عزوجل کے حکم کے آگے ایسے ہی ہیں جیسے سمندر کے آگے جھاگ جو کہ آتی جاتی رہتی ہے مگر سمندر اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے
بدو فقیر نے بیوی سے پوچھا کہ اب تو بتاؤ کی میں روزی کیسے حاصل کروں
qaza aati hai to aankh andhi ho jaati haiعورت بولی کی بغداد میں اللہ عزوجل کا ایک خلیفہ حکومت کر رہا ہے اگر تو کسی طرح اسے وابستہ ہو جائے تو بادشاہ بن جائے گا نصیبہ ور لوگوں کی مسابحت کیمیا ہوتی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر مبارک جب حضرت سیدنا ابوبکر صدیق پر پڑی تو تصدیق سے صدیق بن گئے
بدو فقیر نے پوچھا کہ بادشاہ کے ہاں مقبول کیسے ہوا جاتا ہے اور میں کس طرح بادشاہ تک پہنچوں گا کوئی تعلق یا تدبیر چاہیے کیونکہ پیشہ بغیر اوزار کے نہیں چل سکتا؟
عورت بولی کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ چلیے آؤ اور یہ کہہ کر بغیر حلیہ جانے کی شرم کو توڑ دیا جب شاہ کرم میدان میں نکلتا ہے تو بے سر و سامانی اس کا ذریعہ بن جاتی ہے عاجزی کے ساتھ سوال کرنے میں بڑی کامیابی ہے
بدو فقیر بولا کہ میں بے سروسامانی پیدا کیے بغیر اس کا خیال کیسے کر سکتا ہوں کیونکہ گفتگو قاضی القضا کے سامنے مجروح ہو جاتی ہے وہاں باطنی گواہی درکار ہے سچائی سوال کرنے والے کے حال کی گواہ ہوتی ہے اور وہاں اخلاص کی گواہی درکار ہے
عورت بولی کی سچائی یہ ہے کہ اپنے وجود سے اپنی کوشش کو جدا کر دے اس مٹکے میں ہمارا بارش کا پانی ہے جو میرا  کل سرمایہ ہے اسے بادشاہ کے لیے تحفہ قرار دے دے اسے کہنا کہ ہمارے پاس اس کے سوا کچھ نہیں اگرچہ اس کا خزانہ جواہرات سے بھرا ہوا ہے لیکن اس کے پاس ایسا پانی نہیں ہوگا یہ مٹکا کیا ہے ہمارا بدن ہے اور اس میں موجود پانی ہمارے نمکین حواس ہیں اے اللہ میرے اس مٹکے کو مہربانی فرما کر قبول کر لے
قرآن مجید میں ہے کہ اللہ عزوجل نے مومنین سے ان کی جانیں اور مال جنت کے عوض خرید لیے ہیں اس مٹکے کے پاس حواس اس کی ٹوٹیاں ہیں اپنے حواس کو پاک کر کے اس کوزے کو راستہ سمندر کی جانب کر لیتا کہ کوزہ سمندر کی خصلت اختیار کر لے
یہ تحفہ جب تو بادشاہ کے پاس لے کر جائے گا تو وہ اس کو پاک دیکھے گا اور ہو سکتا ہے کہ بادشاہ اس کا خریدار بن جائے ایسا ہو گیا تو اس کا پانی لا انتہا ہو جائے گا تو اپنی نفسانی خواہشات کو قابو میں رکھ
بدو اپنے تحفے پر فخر کر رہا تھا کہ بادشاہوں کے لائق یہی تحفہ درست ہے اس کو معلوم نہ تھا کہ بغداد کے درمیان ایک ایسا دجلہ دریا بہتا ہے تو اپنا مٹکہ بادشاہ کی خدمت میں لے جا پھر اللہ عزوجل کی قدرت کا نظارہ کر اس طرح ہماری معلومات اور احساسات اس صاف سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ ہے یہ معلومات اس ذات سے حاصل کر جس کے پاس لوح محفوظ ہے
بدو فقیر نے کہا کہ اس کوزے کو نمدے میں سیدھے تا کی بادشاہ اس تحفے سے اپنا روزہ افطار کرے شہری لوگ نمکین پانی پینے کی وجہ سے اکثر بیمار رہتے ہیں تیری جگہ کھاری پانی کا چشمہ ہے تو جیوں اور فرات کے پانی کی صفائی کو کیا جانے تو اس فانی شرائع سے نہیں چھوٹا تو سوا اور سکر اور اس بات کو کیا جانے
بدو فقیر نے ڈھیلیا  اٹھائی اور سفر پر روانہ ہو گیا وہ چلتا رہا اور زمانے کے مصائب سے ٹھلیا کو پہنچنے والے نقصان سے پریشان تھا
اس کی عورت نماز میں کہہ رہی تھی کہ اے اللہ اسے سلامت رکھ ہمارے پانی کو کمینوں سے محفوظ رکھ اس موتی کی حفاظت فرما کہ اس موتی کے دشمن ہزاروں ہیں
qaza aati hai to aankh andhi ho jaati haiبدو فقیر جب دارالخلفاء پہنچا تو اس نے انعامات سے بھرا ہوا ایک دریا دیکھا ہر جانب سے ضرورت مند اس در سے خلات اور عطا پا رہے تھے کافر مومن اچھے برے انسان سے لے کر چیونٹی تک اہل زاہد جواہر میں لدے ہوئے تھے اور اہل باطن نے حقیقت کا سمندر پایا تھا ہر جانب سے آواز اتی تھی کہ اے سائل کیونکہ سخاوت کو سائل کی ضرورت ہے سخی سائلوں کا محتاج ہوتا ہے
وہ بدو فقیر جب دارالخلفاء پہنچا تو نقیب اس کے پاس آئے انہوں نے مہربانی سے گلاب اس کے چہرے پر چھڑکا اور بغیر کسی قسم کی گفتگو کیے اس کی حاجت سمجھ گئے انہوں نے پوچھا اے سردار تو کہاں سے آیا ہے
اس بدو فقیر نے کہا کہ تو میرے لیے ذریعہ معاش مہیا کر دو تو میں سردار ہوں ورنہ میری کچھ حقیقت نہیں تم سب مجھے سردار نظر آتے ہو اور تمہارا ایک دیدار بہت سے دیدار ہیں اے نقیب تم سب اللہ عزوجل کے نور سے دیکھتے ہو اس کے پاس سے میرے لیے کوئی انعام لائے ہوتا کہ تم مجھ پر اپنی کیمیا اثر نگاہیں ڈالو میں بہت دور جنگل سے بادشاہ کی مہربانی کی امید پر یہاں آیا ہوں کیونکہ اس کی مہربانی کی خوشبو کی وجہ سے ریت کے ذروں میں جان پڑ گئی
میں یہاں دینار لینے آیا ہوں لیکن دیدار نے مجھے مست کر دیا ہے میں ایک معمولی مقصد لے کر آیا تھا لیکن میرے ساتھ تو ایسا ہوا جیسے بدوئی نے کنویں سے پانی نکالا تو حضرت یوسف علیہ السلام کے دیدار سے مشرف ہو گیا حضرت موسی علیہ السلام معمولی آگ لینے گئے تو وہ چیز حاصل کر لی جو آگ سے جدا کر دے حضرت عیسی علیہ السلام دشمنوں کے نرغے سے خود دے تو چوتھے آسمان پر پہنچ گئے حضرت آدم علیہ السلام نے گیہوں کی جانب ہاتھ بڑھایا تو ان کا وجود انسان کا گچھا بن گیا
قضا آتی ہے تو آنکھ اندھی ہو جاتی ہےجن سے انبیاء علیہم السلام پیدا ہوئے بعض دانہ کھانے کے لیے جال میں پھنسا تو اس کو بادشاہ کی کلائی پر جگہ مل گئی حضرت سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کے لیے گرفتار ہو کر مسلمان ہو گئے تو ان کی نسلیں کو بادشاہت مل گئی حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لیے نکلے اور شریعت نے انہیں امیر المومنین بنا دیا
میں بھی اس در پر ایک چیز کا طالب بن کر آیا ہوں میں پانی کا تحفہ لایا ہوں اور اسے بادشاہ تک پہنچانا چاہتا ہوں روٹی نے انسان کو جنت سے نکالا لیکن مجھے روٹی نے جنت سے وابستہ کر دیا اب میں اس آسمان جیسے در کا طواف کرتا ہوں کیونکہ میں روحانی دولت سے مالا مال ہو کر دنیا سے بے نیاز ہو چکا ہوں
بدو فقیر نے اپنی پانی کی ٹھلیاں نقیبوں کو پیش کی اور اس طرح اس دریا میں خدمت کا بیج بو دیا
بدو فقیر بولا کہ میرا یہ تحفہ بادشاہ کی خدمت میں پیش کر دو بارش کا میٹھا پانی ہے جو میں نے گڈھے میں جمع کیا تھا نقیبوں نے اس کی بات سنی تو ہنس دیے لیکن انہوں نے اس تحفے کو دل و جان سے قبول کیا کیونکہ بادشاہ کی مہربانی کا اثر اس کا خدام پر بھی ظاہر ہوتا ہے بادشاہ اچھا ہوگا تو اس کے خدا بھی اچھے ہوں گے
بادشاہ کو حوض اور اس کے خدام کو ٹوٹیاں جانو چونکہ پانی ایک ہی حوض سے آتا ہے تو ہر ٹوٹی کا پانی خوش ذائقہ ہوتا ہے اگر حوض خاری اور ناپاک ہوگا تو ہر ٹوٹی سے پانی بھی ویسا ہی نکلے گا کیونکہ وہ حوض سے وابستہ ہے روح چونکی پورے بدن پر حاکم ہے اور اس عالم کی کوئی چیز نہیں اور اس دنیا کے اعتبار سے وہ بے وطن ہے اس طرح روح کو بدن سے وہی نسبت ہے جو بادشاہ کو رعایہ سے ہے
پاک نیت پاک نصب عقل کی لطافت پورے بدن کو مہذب بنا دیتی ہے اور اس دریا کی لطافت کو دیکھ جو کوثر کی مانند ہے اور اس کے سنگریز سب موتی اور گوہر ہیں جس طرح رعایہ بادشاہ کے اوصاف کو قبول کرتی ہے اور شاگرد اپنے استاد کے اوصاف کو اپناتا ہے اسی طرح وہ استاد جو راہ خدا میں محفو ہے اس کے شاگرد بھی راہ خدا میں محبوب ہوں گے اور علم کی تمام اقسام میں مرنے کے بعد اخرت کے راستے کا سامان فکر ہی ہے

وجہ بیان

مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں ایک بدو فقیر اور اس کی بیوی کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قضا آتی ہے تو آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں اور جب تک انسان اپنے بدن کو ظاہری نجاست سے پاک نہیں کرے گا اس کہتے ہیں کہ روح ہرگز پاک نہ ہوگی

رسول اللہ نے غوث پاک کی تصدیق فرمائی

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔