قوی کا ضعیف سے پیدا ہونا لازم نہیں

قوی کا ضعیف سے پیدا ہونا لازم نہیں

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے کہا! مجھے اپنی اصل صورت دکھاؤ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی کہ انسان کی حس کمزور ہوتی ہے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تاب نہ لا سکیں گے اور آپ کو تکلیف ہوگی۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ مجھے اپنی اصل صورت دکھاؤ کہ میرے جسم کو اس کے حواس کی کمزوری کا علم ہو ہاں انسان کے جسمانی ہوا یقینا کمزور ہوتے ہیں لیکن انسان کی روح نہایت طاقتور ہوتی ہے۔

انسان کے جسم کی مثال لوہے اور پتھر کی سی ہے لیکن اس کی صفت چقماق کی سی ہے جس میں آگ جیسی قوی مخلوق پوشیدہ ہے قوی کا ضعیف سے پیدا ہونا لازم نہیں ہے انسان کا بدن چقماق کے ذریعے آگ سے پیدا کرتا ہے اور وہی آگ انسان کے بدن کو پھونک ڈالتی ہے انسانی جسم میں ایک ابراہیمی آگ پوشیدہ ہے جو جوش سے اس آگ کے کرے پر غالب آجاتی ہے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اگرچہ پہلے لوگوں کی کھیتی بتایا لیکن چونکہ پیدا وار اصل سے بڑھی ہے اسی لیے اس کو ان سے سابقہ بتایا پتھر اور لوہے ہتھوڑے سے عاجز ہیں لیکن ان سے جو آگ پیدا ہوتی ہے وہ انگنت ہتھوڑوں کو پگھلانے کی صلاحیت رکھتی ہے انسان اگرچہ اس دنیا اور جہان کی پیداوار ہے لیکن اصل میں بڑھا ہوا ہے انسان کا ظاہری جسم مچھر سے عاجز ا جاتا ہے مگر اس کی روح ساتوں اسمانوں کو گھیرے ہوئے ہیں۔قوی کا ضعیف سے پیدا ہونا لازم نہیںحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر حضرت جبرائیل علیہ السلام اپنی اصل صورت میں آئے اور ان کے ایک پرنے مشرق و مغرب کا احاطہ کیا ہوا تھا حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش ہو کر گر پڑے۔

حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو اپنی بغل میں لیا اور غرض کی یہ خوف اور ہیبت تو منکرین کے لیے ہے دوستوں کے لیے تو محبت ہے بادشاہ کا روپ و دبدبہ عوام و خواص سب کے لیے ہوتا ہے تاکہ عوام متکبر نہ ہو اور شر نہ پھیلائے بادشاہ کہ اس رعب کی وجہ سے شہر پر امن رہتا ہے لیکن جب بادشاہ اپنے حواس کی محفل میں ہوتا ہے تو وہاں خوف نہیں ہوتا اور نہ ہی بدلے میں قتل کا خوف ہوتا ہے وہاں بربادی ہوتی ہے وہاں عیش و عشرت کے محافل میں چنگ و رباب ہوتا ہے محاسبہ کی کچہری عوام کے لیے ہوتی ہے اور خاص محافل میں حسینوں کے ہاتھ میں جام ہوتا ہے۔

اے سالک! اس بات کا خاتمہ نہیں ہے اللہ عزوجل ہر ایک ہی راست روی کو خوب جانتا ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر کی وہ حس جو چھپ جانے والی ہے اس وقت مدینہ منورہ کی مٹی کے نیچے آرام فرما رہی ہے لیکن وہ بڑی مخلوق جو صف شکن ہے اللہ عزوجل کی خاص مجلس میں موجود ہے۔

تغیر تو جسم کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور روح تو باقی رہ جانے والی اور ہمیشہ روشن سورج کی مانند ہے روح کے لیے تغیر نہیں اور وہ نہ ہی مشرقی ہے نہ مغربی اس کا تعلق تو عالم امر سے ہے اس بے ہوشی کا تعلق آپ کے جسم سے تھا بیماری اور درد و علم کا تعلق بھی اس جسم سے ہے روح کے اوصاف کا بیان ممکن ہے اگر اس کے اوصاف بیان کیے جائیں تو کوئی بھی سننے کی تاب نہیں لا سکتا۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری دونوں آنکھیں اگرچہ سوتی ہیں مگر دل نہیں سوتا آپ کی روح مبارک سوئی ہوئی نہیں بلکہ اس پر جسم کی حفاظت کے لیے غیر اختیاری تغافل طاری ہوا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بے ہوش ہونے سے یہ کوئی نہیں سمجھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی فضیلت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہے کہ اگر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے روحانی پروں کو پھیلا دیں گے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام بے ہوش ہو جائیں گے معراج کی رات حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یہ کہہ کر حضور کریم کا ساتھ چھوڑ دیا تھا کہ اس کے آگے میرے پر جل جائیں گے جب کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیران کی پہنچ سے آگے تھی۔

حیرانگی اس میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاتے ہوئے پر جل جانے کا عذر کیوں پیش کیا حضرت جبرائیل علیہ السلام کو چاہیے تھا کہ خواہ ان کے پر جل جاتے یا جان چلی جاتی تھی یہ نہ سوتی موت تو ایک کھیل ہے۔

اے حسام الدین! عوام کی عقول الٹی ہیں ہماری یہ باتیں انہیں الٹی نظر آتی ہیں کیونکہ یہ لوگ نہ سوتی ہیں آپ ان میں عارضی ہیں ان کی عقول کے مطابق باتیں کرتے ہیں آپ کا وطن تو عالم آخرت ہے۔

حضرت موسی علیہ السلام کو حکم ہوا تھا کہ وہ فرعونیوں سے نرم لہجے میں بات کریں مخالفین سے سخت لہجے میں بات کرنے سے بات بگڑ جاتی ہے اور نرمی سے بات کیجئے مگر صحیح بات کیجئے اور ان کا دل رکھنے کو غلط بیانی سے کام نہ لیں آپ روحانی نصیحت کریں جس میں الفاظ کی حاجت نہیں ہوتی۔qawi ka zaeef se paida hona lazim nahiمثنوی کے مضامین اور علوم جوان گورستان کی مثال ہے اس میں وہ باتیں نہ کریں جو عوام کے لیے حجاب کا کام دیں جب یہ لوگ دنیاوی الائشوں سے پاک ہو جائیں گے تو یہ مثنوی ان کے لیے مفید ہوگی

مثنوی میں اگرچہ الفاظ میرے ہیں لیکن معافی آپ کے عطا کردہ ہیں یہ میری غلطی ہے بلکہ الفاظ اور معنی دونوں آپ ہی کے عطا کردہ ہیں آپ عند اللہ محمود ہیں اللہ کرے کی دنیا میں بھی آپ محمود رہیں اور لوگ آپ کے قائل ہو کر آپ سے مصطفید ہوں اور یہ نہ سوتی لوگ آپ جیسے ملکوتی سےمل جائیں اور جب یہ لوگ روحانیت میں داخل ہو جائیں گے تو ہر قسم کی دوائی ختم ہو جائے گی۔

دنیا میں اتحاد اور نفاق کا سبب روحوں کا اتحاد اور تنافر ہے جب روحوں میں اتحاد ہوتا ہے تو دنیا میں بھی حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے مانند لوگ شیر و شکر ہو جاتے ہیں اگر تھوڑی سی پہچان کے بعد ان میں اجنبیت ا جاتی ہے تو وہ پردہ اور حجاب بن جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ منکروں کی روحوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پہچانا سورہ لم یکن پڑھ لو ہمارے اس بیان کی تصدیق ہو جائے گی وہ اول پہچانتے تھے مگر بعد میں منکر ہو گئے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے قبل آپ کی تعریف ہر یہودی و نصرانی کرتا تھا وہ کہتے تھے کہ ایک نبی آئے گا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تصور کر کے ان کے دل تڑپتے تھے اللہ عزوجل سے حضور نبی کریم کی بست کی دعائیں کرتے تھے حضور نبی کریم کا تصور ہر وقت ان کے گمان میں رہتا تھا انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیالی تصویر بنا رکھی تھی ایک دیوار کی دو رخی اس کا عیب ہے اگر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر دیوار پر پڑ جائے تو وہ اپنی بے رخی کو چھوڑ دے۔

قرآن مجید میں ہے کہ جب وہ چیز ان کے پاس آئی جس کو وہ جان چکے ہیں تو وہ اس کا کفر کرنے لگے وہ کافی کھوٹے سکے تھے جب ان پر ایمان کی گرمی پڑی تو وہ کالے ہو گئے ہونٹوں اور منافقوں کے دل میں اللہ عزوجل کی محبت نہیں ہوتی کھوٹا کسوٹی کے شوق کی شیخی مارتا ہے تاکہ دوسروں کو شک میں مبتلا کرے اور وہ سمجھیں کہ اگر یہ گھرانہ ہوتا تو کسوٹی کا شوق کیوں ظاہر کرتا۔

ایسے شکوک میں نا اہل مبتلا ہوتے ہیں اور ان نااہلوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ وہ کھوٹا کسوٹی چاہتا ہے لیکن جھوٹی کسوٹی چاہتا ہے جس سے اس کا عیب ظاہر نہ ہو سکے۔

یہ کلام اس قدر دراز ہے کہ قیامت تک بھی ختم نہیں ہوگا اسی لیے اسے ختم کر دینا چاہیے اتنی بات جان لو کہ جو کسوٹی عیب کو چھپائے وہ کسوٹی نہیں ہے اور نہ ہی اس میں اسے پہچاننے کا نور ہے۔

جو آئینہ چہرہ ہے کا عیب چھپائے وہ آئینہ نہیں ہے بلکہ منافق ہے ایسے آئینہ کی جستجو ہرگز نہ کرو وہ آئینہ تلاش کرو جو چہرے کو صحیح دکھائے ایسا آئینہ تیرا مرشد ہی ہو سکتا ہے اس کے ذریعے تجھے اللہ عزوجل خود ایسا آئینہ بنا دے گا کہ اس میں عرش و آسمان نظر آنے لگیں گے عرش و آسمان تو کیا اس آئینہ میں تجھے اللہ زوجل کی تجلیات نظر آئیں گے اور تو جان لے گا۔

وجہ بیان  

مولانا رومی رحمہ اللہ علیہ اس حکایت میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت جبرائیل علیہ السلام کی اصلی صورت دیکھنے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قوی کا ضعیف سے پیدا ہونا لازم نہیں جسم اور روح کی کیفیت جدا ہیں جسم کے ساتھ انسان پر کچھ حدود قیود سے آزاد ہوتی ہیں ۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت جبرائیل علیہ السلام کی اصلی صورت دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش ہو گئے اور آپ کا اس طرح بے ہوش ہونا اسی طرح سے تھا کہ اس کا اثر جسم پر ہوا ورنہ معراج کی رات تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت منتخب پر پہنچ کر آگے جانے سے انکار کر دیا تھا اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر اس سے آگے کا تھا۔

بد خواہوں کے ساتھ نیکی کتے کے سیاہ منہ کی مانند ہے

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You cannot copy content of this page

Scroll to Top