qatil ka surag

قاتل کا سراغ

بنی اسرائیل میں ایک مالدار شخص تھا اس کے چچا زاد بھائی نے بمائے وراثت اس کو قتل کر کے شہر سے باہر پھینک دیا اور خود صبح کو اس کے خون کا مدعی بن کر واویلا کرنے لگا لوگوں نے حضرت موسی علیہ السلام سے عرض کیا: کی  آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی اصل بات کو ظاہر فرمائیں۔

اس پر خدا کا حکم یہ ہوا کہ ایک گائے ذبح کرو اور اس گائے کا ایک ٹکڑا اس مقتول کو مارو تو مقتول زندہ ہو کر خود ہی بتا دے گا کہ اس کا قاتل کون ہے لوگوں نے یہ بات سن کر حیران ہو کر پوچھا کہ کیا یہ مذاق تو نہیں ؟حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا: معاذ اللہ کیا میں کوئی ایسی فضول بات کروں گا۔

میں بالکل صحیح کہہ رہا ہوں لوگوں نے پوچھا: تو پھر  یہ گائے کیسی ہو؟ حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا: خدا فرماتا ہے کہ نہ بہت بوڑھی ہو اور نہ بالکل نہ عمر بلکہ ان دونوں کے بیچ میں ہو لوگوں نے کہا: خدا سے یہ بھی پوچھ دیجیے کہ اس کا رنگ کیا ہو؟ فرمایا: خدا فرماتا ہے کہ ایسی پیلی گائے ہو جس کی رنگت دب دو باقی اور دیکھنے والوں کو خوش کر دینے والی ہو۔

لوگوں نے پھر کہا: کہ گائے کی ہر حیثیت کے متعلق ذرا تفصیل سے پوچھ دیجئے ایسا نہ ہو کہ ہم سے کوئی غلطی ہو جائے حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا خدا فرماتا ہے کہ ایسی گائے ہو جس سے کوئی خدمت نہ لی گئی ہو نہ حل جوتی گئی ہو نہ اس اسے کھیتی کو پانی دیا گیا ہو اور بے عیب ہو جس میں کوئی داغ نہ ہو۔

قاتل کا سراغاب وہ لوگ اس قسم کی گائے کی تلاش کرنے لگے مگر ایسی گائے کا ملنا مشکل تھا ہاں ایک گائے کے متعلق انہیں پتہ چلا کہ وہ گائے ان صفات سے موصوف ہے وہ گائے ایک یتیم بچے کی گائے تھی۔

اور اس کا قصہ یہ تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک صالح آدمی تھا جس کا ایک چھوٹی عمر کا بچہ تھا اور اس کے پاس سوائے ایک گائے کے بچے کے کچھ نہ تھا اس نے اس بچھیا کی گردن پر مہر لگا کر اسے چھوڑ دیا اور بارگاہ حق میں عرض کیا: کہ اے اللہ! میں اس بچیا کو اپنے بیٹے کے لیے تیرے پاس امانت رکھتا ہوں میرا بیٹا جب بڑا ہو جائے تو یہ اس کے کام آئے اس مرد صالح کا انتقال ہو گیا اور بچھیا جنگل میں پرورش پاتی رہی۔

یہ لڑکا جب بڑا ہوا تو باپ کی طرح صالح اور نیک نکلا اپنی ماں کا بڑا فرمانبردار تھا ایک روز اس کی ماں نے کہا: بیٹا! تیرے باپ نے فلاں جنگل میں تیرے لیے ایک بچیا چھوڑ دی ہے وہ اب جوان ہو گئی ہوگی اس کو جنگل سے لے آ اور اللہ سے دعا کر کہ وہ تجھے تیری امانت عطا فرما دے۔

چنانچہ وہ لڑکا جنگل پہنچا اور اپنی گائے کو دیکھ کر ماں کی بتائی ہوئی نشانیاں اس میں پا کر اسے پہچان لیا اور خدا کی قسم دے کر اسے بلایا تو گائے فورا حاضر ہو گئی وہ اسے لے کر ماں کے پاس پہنچا مانے ہو دیا کہ جاؤ اسے بازار میں لے جا کر تین دینار پر بیچ اؤ اور شرط یہ کہ جب سودا ہو جائے تو ایک بار پھر مجھ سے پوچھ لیا جائے۔

اس زمانہ میں گائے کی قیمت تین دینار تک ہی ہوتی تھی وہ لڑکا گائے لے کر بازار پہنچا تو ایک فرشتہ خریدار کی شکل میں آیا اور اس گائے کی قیمت چھ دینار لگائی مگر اس شرط سے کی لڑکا اپنی ماں سے اجازت لینے نہ جائے یہی ٹھہرے ٹھہرے خود ہی بیچ ڈالے لڑکے نے منظور نہ کیا اور کہا: کہ ماں سے اجازت لیے بغیر میں ہرگز کوئی سودا نہ کروں گا پھر گھر آ کر ماں کو سارا قصہ سنایا مانے چھ دینار پر گائے بیچ دینے کی اجازت تو دے دی ۔

مگر دوبارہ طے ہو جانے کے بعد پھر اپنی مرضی دریافت کر لینے کی پابندیاں لگا دی وہ لڑکا پھر بازار میں آیا اور وہی فرشتہ خریدار بن کر آیا اور 12 دینار قیمت لگا دی مگر اس شرط پر کہ لڑکا ماں سے اجازت لینے نہ جائے لڑکے نے یہ بات پھر منظور نہ کی اور ماں سے آکر سارا حال کہہ دیا ماں سمجھ گئی کہ یہ خریدار کوئی فرشتہ ہے جو آزمائش کے لیے آتا ہے۔

قاتل کا سراغلڑکے سے کہا: کہ اب جو خریدار آئے اس سے کہنا کہ آپ ہمیں یہ گائے بیچنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں؟ لڑکے نے یہی بات اس خریدار سے کہہ دی تو فرشتے نے کہا: کہ ابھی اس گائے کو روکے رکھو جب بنی اسرائیل خریدنے آئیں تو اس کی قیمت یہ مقرر کرنا کہ اس کی کھال کو سونے سے بھر دیا جائے لڑکا گائے کو گھر واپس لے آیا یہ گائے ہی ایک ایسی گائے تھی جس میں خدا کی بتائی ہوئی ساری صفات پائی جاتی تھیں اور جس کی بنی اسرائیل کو تلاش تھی۔

چنانچہ بنی اسرائیل کو اس گائے کا پتہ چلا تو مکان پر پہنچے تو اس گائے کی یہی قیمت مقرر ہوئی کہ اس کی کھال کو سونے سے بھر دیا جائے اور حضرت موسی علیہ السلام کی ضمانت پر وہ گائے بنی اسرائیل کے سپرد کر دی گئی اور بنی اسرائیل نے اسے ذبح کر کے اس گوشت کا ایک ٹکڑا اس مقتول کی لاش پر مارا تو وہ زندہ ہو کر کہنے لگا: کہ مجھے میرے چچا زاد بھائی نے قتل کیا ہے چنانچہ قاتل کو بھی اقرار کرنا پڑا اور وہ پکڑا گیا۔

(قرآن کریم)

سبق

خدا کی بتائی ہوئی گائے کے ٹکڑے میں اگر اتنی برکت ہے کہ مردے سے لگ جائے تو وہ زندہ ہو جائے تو جو خدا کے مقبول بندے ہیں ان کے وجود میں کیوں نہ لاکھوں برکتیں اور کرامتیں ہوں گی اور کیوں نہ ان کے اشارے ہی سے مردوں کو زندگی ملتی ہوگی۔

اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ظالم لاکھ چھپا کر ظلم کرے مگر اس کا پول کھل کر ہی رہے گا اور جس طرح حکمت ربی سے بنی اسرائیل کے مقتول کے قاتل کا پتہ چلا اسی طرح کل قیامت کے دن حکمت رب بھی سے ہر ظلم کا پتہ چل جائے گا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ماں کا وجود بڑی نعمت ہے اور اس کی رضا جوئی سے دین و دنیا کی بہتری حاصل ہوتی ہے۔

اور یہ بھی معلوم ہوا کہ گائے معبود نہیں ہے معبود صرف اللہ ہی ہے بنی اسرائیل نے چونکی سامری کے بنائے ہوئے گائے کے بت ہی کی پوجا کی تھی اسی لیے اللہ نے انہی کے ہاتھوں ایک گائے ہی کو ذبح کرایا تاکہ انہیں پتہ چل جائے کہ اصل معبود تو وہ ہے جو اس گائے کو ذبح کرنے کا حکم دے رہا ہے۔

حضرت عزیر علیہ السلام اور خدا کی قدرت کے کرشمے

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You cannot copy content of this page

Scroll to Top