قمیض یوسف
حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے سامنے افشاہ راز فرما دیا اور بتایا کہ میں ہی یوسف ہوں اور پھر اپنے بھائیوں سے حضرت یعقوب علیہ السلام کا حال دریافت فرمایا: وہ کہنے لگے! کہ آپ کے فراق میں روتے روتے ان کی نظر بے حال نہیں رہی یوسف علیہ السلام نے فرمایا: تو یہ لو میری قمیض لے جاؤ اسے والد ماجد کے منہ پر ڈال دو ان کی بینائی واپس آجائے گی۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی اس قمیض مبارک کی یہ شان تھی کی کسی بیمار پر بھی ڈالی جاتی تو وہ اچھا ہو جاتا چنانچہ وہ لوگ قمیض لے کر واپس لوٹے اور وہ بھائی جس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینکنے کے بعد آپ کی قمیض خون الود کر کے یعقوب علیہ السلام کو دکھائی تھی کہنے لگا: اس دن بھی میں نے قمیض یوسف اٹھائی تھی اور والد صاحب کو رنج پہنچایا تھا اور آج بھی میں ہی قمیض یوسف اٹھاتا ہوں اور والد صاحب کو خوش کروں گا۔
چنانچہ قمیض یوسف اسی نے اٹھائی اور کنعان کی طرف روانہ ہوئے ادھر یہ لوگ مصر سے نکلے ادھر کنعان میں یعقوب علیہ السلام اپنے اور احباب سے فرمانے لگے: کہ آج مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے وہ کہنے لگے: آپ تو اسی پرانی وارفتگو میں ہیں بھلا اب یوسف کہاں؟
اتنے میں برادران یوسف! آپہنچے اور وہ قمیض حضرت یعقوب علیہ السلام کے منہ پر ڈال دی تو فورا آپ کی بینائی پھر آئی آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔
(قرآن کریم)
سبق
اللہ والوں کے بدن انور سے جو چیز لگ جائے وہ دافع البلا اور بیماریوں کے لیے شفا بن جاتی ہے پھر اللہ والے خود کیوں نہ دافع البلا ہوں اور انہیں دافع البلا کہنا شرک کیسے ہو سکتا ہے۔