qahat sali

قحط سالی

حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے بادشاہ بن گئے اور آپ نے ملک میں عدل و انصاف اور امن و امان قائم فرما دیا اور آنے والی قحط سالی کے پیش نظر غلے کے بڑے بڑے ذخیرے جمع فرمائے پھر جب قحط کا دور آیا تو سارے ملک میں یہ بلا عظیم عام ہو گئی اور تمام بلاؤ انصار اس مصیبت میں گرفتار ہو گئے اور ہر جانب اسے لوگ غلہ خریدنے مصر آنے لگے۔

حضرت یوسف علیہ السلام ہر کسی کو ایک اونٹ سے زیادہ غلہ نہیں دیتے تھے تاکہ سب کی امداد ہو سکے اور جس طرح یہ قحط سالی کی مصیبت تمام شہروں میں نازل ہوئی اس طرح کنعان بھی قحط کی لپیٹ میں آگیا۔

حضرت یعقوب علیہ السلام نے بن یامین کے سوا دسوں بیٹوں کو غلہ خریدنے مصر بھیجا جب یہ دسوں بھائی مصر حضرت یوسف علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے انہیں پہچان لیا مگر وہ حضرت یوسف علیہ السلام کو پہچان نہ سکے اسی لیے کہ ان کا خیال تھا کہ یوسف علیہ السلام اتنے طویل عرصے میں کہیں انتقال فرما چکے ہوں گے اور اس لیے بھی حضرت یوسف علیہ السلام اس وقت شاہی لباس میں ملبوس تشریف فرما تھے۔

ان دسو بھائیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام سے عبرانی زبان میں گفتگو کی اور یوسف علیہ السلام نے بھی عبرانی میں جواب دیا: آپ نے فرمایا: تم کون لوگ ہو؟ وہ بولے: ہم شام کے رہنے والے ہیں اور ہم بھی قحط کے باعث پریشان ہیں اور آپ سے غلہ خریدنے آئے ہیں آپ نے فرمایا: تم جاسوس تو نہیں؟ وہ بولے: ہم اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ ہم جاسوس نہیں ہیں ہم سب بھائی ہیں اور ایک باپ کی اولاد ہیں ہمارے باپ بہت معمر بزرگ ہیں اور ان کا نام نامی حضرت یعقوب (علیہ السلام) ہے وہ اللہ کے نبی ہیں۔

قحط سالیآپ نے فرمایا: تم کتنے بھائی ہو؟ وہ بولے: تھے تو ہم 12 مگر ایک بھائی ہمارے ساتھ جنگل میں گیا تھا وہاں ہلاک ہو گیا اور والد صاحب کو ہم سے پیار تھا فرمایا: اب تم کتنے بھائی ہو؟ وہ بولے: دس فرمایا گیارہوا  کہاں ہے؟ کہا: وہ والد صاحب کے پاس ہے کیونکہ وہ ہلاک ہو گیا تھا وہ ماں کی طرف سے بھی اس کا حقیقی بھائی ہے اسی لیے اب والد صاحب کو اسی سے کچھ تسلی ہو جاتی ہے۔

حضرت یوسف علیہ السلام نے ان بھائیوں کی بڑی عزت کی اور ان کی میزبانی فرمائی اور پھر ہر بھائی کا اونٹ غلہ سے بھر دیا اور زاد سفر بھی دیا اور رخصت فرماتے ہوئے فرمایا: کہ اب جو آؤ تو اپنے گیارہویں بھائی کو بھی ساتھ لانا میں اس کے حصے کا ایک اونٹ بھر غلہ اور زیادہ تمہیں دوں گا دیکھ لو میں کتنا مہمان نواز ہوں اور اگر تم اسے ساتھ نہ لائے تو پھر میرے پاس نہ آنا تمہیں مجھ سے کچھ نہ ملے گا پھر آپ نے غلام سے فرمایا: کہ ان دسو بھائیوں نے غلہ کی جو قیمت دی ہے یہ ساری پونجی بھی ان کے غلہ میں رکھ دو۔

چنانچہ وہ دسوں واپس کنعان پہنچے اور حضرت یعقوب علیہ السلام سے بادشاہ مصر کی اور اس کے حسن و سلوک کی بڑی تعریف کی اور پھر جب غلہ کو کھولا تو اپنی ادا کردہ قیمت بھی اس میں سے نکل آئی یہ دیکھ کر وہ بڑے متاثر ہوئے اور کہا: ابا جان! یہ بادشاہ تو بڑا ہی دریا دل اور سخی ہے دیکھیے غلہ بھی دے دیا ہے اور قیمت بھی لوٹا دی۔

ابا جان! اس نے ہمیں یہ بھی کہا ہے کہ تم اگر اپنے بھائی بنیامین کو بھی ساتھ لے آؤ تو میں اس کے حصے کا غلہ بھی دے دوں گا تو ابا جان! آپ بنیامین کو بھی ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تاکہ اس کے حصے کا بھی غلہ مل جائے یعقوب علیہ السلام نے فرمایا: اس سے پہلے میں بنیامین کے بھائی یوسف کو تمہارے ساتھ بھیج کر دیکھ چکا ہوں اب اسے بھی تمہارے ساتھ بھیج کر تمہارا پھر اعتبار کیسے کروں وہ بولے: ابا جان! ہم اس کی ضرور حفاظت کریں گے اور اس بات پر ہم اللہ کا ذمہ دیتے ہیں اور اسے ضرور ہمارے ساتھ بھیجیے یعقوب علیہ السلام نے فرمایا اچھا خدا نگہبان ہے جاؤ دنیامین کو لے جاؤ۔

qahat saliچنانچہ یہ لوگ بنیامین کو لے کر پھر مصر گئے  اور یوسف علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئے اور کہا: جناب ہم اپنے گیارویں بھائی کو بھی ساتھ لے آئے ہیں حضرت یوسف علیہ السلام بہت خوش ہوئے اور ان کی بڑی خاطر مدارت کی اور پھر ایک دعوت کا انتظام فرمایا.

ایک وسیع دسترخوان بچھایا اور دو صاحبوں کو بٹھایا وہ دسوں بھائی تو دو دو ہو کر بیٹھ گئے مگر بنیامین اکیلے رہ گئے وہ رو پڑے اور کہنے لگے: اگر آج میرے بھائی یوسف زندہ ہوتے تو میرے ساتھ وہ بھی بیٹھتے حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا: تمہارا ایک بھائی اکیلا رہ گیا ہے لہذا اسے میں اپنے ساتھ بٹھاتا ہوں۔

چنانچہ بنیامین کے ساتھ آپ خود بیٹھ گئے اور اس سے فرمایا: کہ اگر تمہارے گمشدہ بھائی یوسف کی جگہ میں تمہارا بھائی ہو جاؤں تو کیا تم پسند کرو گے؟ بنیامین نے کہا: سبحان اللہ! آپ جیسا بھائی اگر میسر آئے تو زہے نصیب لیکن یعقوب کا فرزند اور (راحیل) یوسف علیہ السلام اور بنیامین کی ماں کا نام ہے کا نور نظر ہونا تو آپ کو حاصل نہیں ہو سکتا۔

حضرت یوسف علیہ السلام رو پڑے اور بنیامین کو گلے لگا لیا اور فرمایا: میں ہی تمہارا بھائی یوسف ہوں تم جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں اس کا کوئی غم نہ کرو اللہ کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہم کو پھر جمع فرما دیا اور دیکھو اس راز کی اطلاع اپنے بھائیوں کو نہ دینا بنیامین یہ سن کر خوشی سے بے خود ہو گئے۔

(قرآن کریم)

سبق

اللہ والے برا سلوک کرنے والے سے خندہ پیشانی سے پیش اتے ہیں اور بجائے برائی کے برائی کا بدلہ بھی نیکی سے دیتے ہیں۔

سامری سنار

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔