پہلی وحی پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت
غار حرا میں جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی مرتبہ وحی نازل ہوئی تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کپکپی طاری ہو گئی. آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرائے ہوئے گھر تشریف لائے اور ام المومنین حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چادر اوڑھا دی
بعض روایات میں ہے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کی نافرمانی سے رنجیدہ ہو کر چادر اوڑھ کر لیٹے تھے مولانا محمد جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ دوسری وجہ کو صحیح مانتے ہیں اس لیے کہ اللہ عزوجل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یحیی المزمل یعنی کملی اوڑھنے والا کہا اور فرمایا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رو پوشی اختیار کریں گے تو لوگ گمراہی میں مبتلا ہو جائیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو قیام کریں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شمع کی مانند ہیں اور شمع کا کام رات کو کھڑے رہنا ہے آپ کے نور ہدایت سے ایک عالم روشن ہوگا ورنہ روح جو کی شیر کی مانند ہے وہ نفس سے جو کہ خرگوش کی مانند ہے مغلوب رہے گی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لیے کشتی بان کی مانند ہیں اور رہنمائی وہی کر سکتا ہے جو صاحب عقل ہو بالخصوص دریائی راستوں کا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھیے کہ ہر جانب شیطان نے جال بنا رکھا ہے اور اس وقت علم لدنیا کا فیض پہنچانے والی ذات صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہے
روح اللہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنی قوم سے روپوش ہو کر آسمانوں کی جانب اٹھائے جا چکے اور مخلوق خدا کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آفتاب ہدایت ہیں آپ کی خلوت اور لوگوں سے جدائی مناسب نہیں چاند آسمان پر اپنی سیر جاری رکھتا ہے اور کتوں کے بھونکنوں سے وہ اپنی رفتار میں کوئی فرق نہیں آنے دیتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف کتوں کی مانند ہیں اور ان کے بھونکنے سے آپ اپنا طرز عمل نہ بدلیں۔
قران مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ جب قران مجید کی تلاوت ہو تو خاموشی سے اسے سنو اور یہ کتے اس حکم سے بے بہرہ ہیں اور وہ بھونکتے چلے جاتے ہیں یہ عالم بیمار ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے شفا ہیں مخلوق اندھی ہے اور آپ ان کے رہنما ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخالفین کی وجہ سے اس کام کو ترک نہ کریں۔
حدیث شریف کے الفاظ ہیں کہ جس نے اندھے کی 40 قدم تک رہنمائی کی اس کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس اندھی مخلوق کی رہنمائی کریں اور ان کو قطار در قطار کھینچ کر لے جائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی اخر الزمان ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سوگ کو خوشی میں بدل دیں۔
جو لوگ شکوک و شبات میں مبتلا ہیں ان کو شکوک و شبہات سے نکال کر یقین کی منزل تک پہنچا دیں جو لوگ آپ کے خلاف مکر کے جال تیار کر رہے ہیں ان کو میں ہلاکت میں مبتلا کروں گا اور جو اندھے ہیں ان کو مزید اندھا کروں گا میں ایسی تدبیر کروں گا کہ وہ زہر کو بھی شکر سمجھ کر کھا جائیں گے اور ان مخالفین کی اقول اور ان کی تدابیر میری تدابیر سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی ان کا وجود میرے سامنے ایسے ہی ہے جس طرح ایک نرہاتھی کے مقابلے میں کمبل کا جھونپڑا۔
بروز محشر جب اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے تو مردے اٹھ کھڑے ہوں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں اپنا سور پھونکیں اور اپنی نبوت کا اعلان کریں اور مردہ دلوں کو عبدی زندگی عطا فرمائیں۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اور قیامت کو ملا جلا بھیجا گیا ہے جس طرح قیامت حق اور باطل میں تفریق کرتی ہے اسی طرح میں بھی حق اور باطل کے درمیان تفریق پیدا کرتا ہوں جس طرح قیامت کے دن مردے زندہ ہوں گے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعشت سے مردہ دلوں کو زندہ زندگی حاصل ہوگی اور یقینا ایسا ہی ہوا ۔
اگر ان معارف کے سننے کی اہلیت نہیں تو پھر ان کے بیان سے خاموشی بہتر ہے اور اگر نادانی سے دعا کرتا ہے تو اس کی دعا قبول ہونے والی نہیں ہوتی تو سکوت اختیار کر لیا جاتا ہے۔
مقام کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے کہ کملی سے اوڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا لیکن وقت کی گنجائش اس کی اجازت نہیں دیتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کو بیان کرنے کے لیے عمر جادواں بھی نفس کافی ہے بہترین نیزہ باز سے بھی یہ کہا جائے کہ وہ گڈھے میں گھس کر نیزہ بازی کرے تو وہ بھی ذلیل و رسوا ہو جائے گا اور صحیح نشانہ نہیں لے سکے گا کیونکہ اس کے لیے ایک وسیع میدان درکار ہے۔
پس معارف کا بیان تنگی وقت میں اور وہ بھی عوام کے سامنے اس کی بھی یہی صورت ہے کہ پہلے بیان کیا گیا کہ احمقوں کا جواب خاموشی ہے تو اعتراض ہوا کی ان معارف کو بیان کرنے میں اس قدر طویل تقریر کیوں تو اس کا جواب یہی ہے کہ میں اللہ عزوجل کی رحمت سے مجبور ہوں کیونکہ اس کی رحمت کی موج کرم اچھی زمین اور شور زا زمین سب کو برابر پہنچتی ہے۔
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی کے نزول کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہمارے لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی مشعل راہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ پر گفتگو کرنے کے لیے ایک طویل مضمون درکار ہے اور ہماری عمر اس کی اجازت نہیں دیتی۔