nek amal me kotahi bartne wala beshaq na murad hi rahta hai

نیک اعمال میں کوتاہی برتنے والا بے شک نامراد ہی رہے گا

ملک روم کے ایک بادشاہ پر کسی طاقتور دشمن نے چڑھائی کر دی اور اس کی ممالکت کا بیشتر علاقہ فتح کر لیا اب اس بادشاہ کے قبضے میں صرف کچھ علاقہ اور ایک قلعہ رہ گیا جس میں وہ قیام پذیر تھا یہ بادشاہ بڑھاپے کو پہنچ چکا تھا.

اور اس پر اس کی حالت اس لیے بھی قابل رحم تھی کہ اس کا بیٹا اس کے معیار پر پورا نہ اترتا تھا بادشاہ یہ سوچتا تھا کہ میں کسی طرح اپنے دشمن سے اپنے علاقے واپس لے سکوں جب کہ میرا بیٹا بھی نہ اہل ہے اور نہ ہی وہ امور سلطنت چلانے کی قدرت رکھتا ہے۔

ایک دن بادشاہ نے ایک بزرگ کو اپنے حالات کے متعلق بتایا اور اپنے حالات بیان کرتے ہوئے اس کی انکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

ان بزرگ نے بادشاہ سے کہا! کہ تو سخت نادانی کی بات کرتا ہے اور ایک ایسی چیز کے لیے فکر مند ہے جو ختم ہونے والی ہے تو اب بڑھاپے کو پہنچ چکا ہے تو اپنی آخرت کی فکر کرنا کی اس سلطنت کی جو فانی ہے اور یہ حکومت ہرگز ایسی چیز نہیں کی اسے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا جائے۔

تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کر تجھے معلوم ہوگا کہ تجھ سے قبل بھی بے شمار بادشاہ گزرے ہیں اور وہ بھی اپنی ممالکت کو اپنے ساتھ نہیں لے گئے اور انہیں اپنی اس ممالکت میں کفن کے سوا کچھ بھی نہ مل سکا۔

اے بادشاہ! تیرے کام آنے والے تیرے اچھے اعمال ہیں بس تو لوگوں پر رحم کر اور اپنے اعمال کی ابیاری بخشش و رحم سے کرتا کی جب تجھے اس کا پھل ملے تو تو اسودہ اور مطمئن ہو جو شخص اپنے بعد والوں کے لیے نیکی اور بھلائی چھوڑ جاتا ہے اس پر مرنے کے بعد بھی اللہ عزوجل کا فضل اور رحمت کا نزول ہوتا رہتا ہے۔nek amal me kotahi bartne wala beshaq na murad hi rahta hai نیک اعمال میں کوتاہی برتنے والا بے شک نامراد ہی رہے گا اور ایسے فضول خیالات کو دل سے نکال دے گی تنور تو اس نے گرم کیا مگر روٹی نہیں لگائی یعنی دنیا میں زندہ تو رہا مگر بھلائی کا کوئی کام نہیں کیا اور جو لوگ وقت پر بیج نہیں ہوتے انہیں اپنی غلطی کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب دوسروں کی فصل پک جاتی ہے اور اس کے۔

وجہ بیان

حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ ہر انسان کو اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہوتی ہے مگر وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس نے ایک دن مرنا ہے اور مرنے کے بعد کے لیے دنیاوی چیزوں جن کے لیے وہ بھاگ دوڑ کرتا ہے کچھ نفع نہ ہوگا اور اس کے نیک اعمال بھی اس کی آخرت کو سنواریں گے۔

پس یہ کسی بھی انسان کو چاہیے کہ اس کے مرنے کے بعد اسے نفع پہنچانے والی شے اس کے نیک اعمال ہیں جو دنیا میں کرتا ہے اسی لیے کہتے ہیں کہ نیک اعمال میں کوتاہی برتنے والا بے شک نامراد ہی رہے گا

فکر دنیا نے اللہ عزوجل سے غافل کر رکھا ہے

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔