حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے غم سے حنانہ ستون کا آنسو بہنا
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے غم سے حنانہ ستون جس سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں ممبر کی تعمیر سے قبل ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے وہ روتا تھا. صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم حیرت میں مبتلا تھے.
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ستون سے ارشاد فرمایا کہ اے ستون تو کیا چاہتا ہے اس نے عرض کی کہ میری جان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں خون ہو گئی اور میری جان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں جل رہی ہے اس لیے روتا ہوں میں آپ کی مسند تھا لیکن اب آپ نے ممبر تعمیر کروا لیا ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو کیا چاہتا ہے? اگر تو چاہتا ہے کہ تجھے کھجور بنا دیا جائے تاکہ لوگ تیرا میوہ کھائیں یا تجھے سرو بنا دیا جائے کہ ہمیشہ تر و تازہ رہے اس ستون نے عرض کیا کہ میں باقاعدہ دائمی چاہتا ہوں۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اس ستون کو زمین میں دفن کیا گیا اور وہ انسانوں کی طرح قیامت کے روز اٹھایا جائے گا ایسا اس لیے کیا کیا تا کہ تم جان لو کہ جو اللہ عزوجل کا ہو گیا وہ دنیا کے کاموں کے لیے بے کار ہو گیا۔
کیونکہ وہاں جو باریاب ہو جاتا ہے وہ دنیا کے کاموں کا نہیں رہتا وہ شخص جس پر اسرار کی بخشش نہ ہوئی وہ بے جان لکڑی کے رونے کی کب تصدیق کرے گا? دل میں نفاق رکھنے والا اللہ عزوجل کے رازوں سے کیسے واقف ہو سکتا ہے?۔
وہم انسانوں کو پورے وہم میں بدل دیتا ہے اور جو لوگ امر "کن کہ واقف ہوتے ہیں وہی ان رازوں کو سمجھ سکتے ہیں اہل عقل میں شیطان شبہ پیدا کرتا رہتا ہے جس سے وہ اندھے ہو کر گر جاتے ہیں. عقلی دلائل والوں کا پیر لکڑی کا ہوتا ہے جو کہ بہت کمزور ہوتا ہے لیکن امر "کن” کے واقف صاحب بصیرت کے پاؤں کا جمع پہاڑ کے مانند ہوتا ہے.
جس طرح اندھا لاٹھی کا محتاج ہوتا ہے اس طرح عوام پیر کا کامل کی رہبری کے محتاج ہوتے ہیں اندھے کی لاٹھی کیا ہے قیاس اور دلیل اس اللہ نے یہ لاٹھی تمہیں دی ہے کہ اگے بڑھو اور غصے میں تم نے وہ لاٹھی اسی پر دے ماری تم اندھے نہ بنو بلکہ کسی صاحب بصیرت کو درمیان میں لاؤ اس کا دامن تھام لو جس نے تمہیں لاٹھی دی.
غور کرو کہ حضرت آدم علیہ السلام نے بھول میں کیا دیکھا? لاٹھی سانپ کیسے بن گئی اور ستون کیسے باخبر ہو گیا? انبیاء کرام صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات پر غور کرو کہ اگر یہ بات عقل میں نہ آنے والی ہوئی تو معجزوں کی کیا ضرورت تھی?
جو عقل میں زمانے والی بات ہے اسے تم قبول کرتے ہو لیکن عقل کی سمجھ میں نہ آنے والے طریقے کو دیکھو اس کا ذریعہ بارگاہ الہی میں مقبول شخص کا دل ہے جس طرح آدمی کے ڈر یا حسد سے جن اور درندے دور جزیروں میں بھاگ گئے اسی طرح انبیاء کرام علیہم السلام کے معجزات کے خوف سے منکروں نے بھی گھاس کے نیچے اپنے سر چھپا لیے.
خدا رسیدہ لوگوں کا ادراک عام اقول سے بالاتر ہوتا ہے اور یہ ادراک کشف اور ذوق حقیقی کے طفیل حاصل ہوتا ہے اہل عقل مکاری سے خود کو سمجھدار بتاتے ہیں اور کھوٹے سکے بنانے والوں کی طرح بظاہر توحید اور شریعت کے الفاظ استعمال کرتے ہیں لیکن ان کا باطن اندر سے کڑوی روٹی کے مانند ہوتا ہے فلسفی کی مجال نہیں کی وہ اللہ عزوجل کے امور میں دم مار سکے.
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں حنانہ ستون کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے غم سے روتا تھا اور پھر اسے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر دفن کر دیا گیا اور اس نے حیات جادوانی پالی اس ستون کو بروز محشر انسانوں کے مانند اٹھایا جائے گا بس یاد رکھو کہ جو اللہ عزوجل کا ہو گیا وہ دنیا کے لیے بے کار ہو گیا۔
وہم انسانوں کو بدل کر رکھ دیتا ہے شیطان کے شر سے بچو کہ وہ اول تمہارے اندر وسوسہ پیدا کرتا ہے جس طرح اندھا لاٹھی کا محتاج ہے اسی طرح عوام الناس پیر کامل کی محتاج ہے بس یاد رکھو کہ اگر تم اپنے باطن کو سنوار لو گے تو یقینا فلاح پاؤ گے ان امور پر جو تمہاری عقول سے بالا ہیں ان پر تنقید کرنے کے بجائے انہیں اللہ عزوجل کی جانب سے جانو۔