موت کے سوا حسد کا کوئی علاج نہیں
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سپاہی کے بیٹے کو میں نے ایک بادشاہ کے دروازے پر کھڑے دیکھا وہ اپنی فہم و فراست میں بے مثل تھا اور ایسا کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ بچپن میں ہی بزرگی کی علامت رکھتا تھا اور عظمت و ذہانت اس کی پیشانی سے ظاہر ہوتی تھی اب دشمن کیا کر سکتے ہیں جب دوست ہی مہربان ہو۔
بادشاہ نے اس سے پوچھا! کہ تیرے ہم جولیوں کی تیرے ساتھ کیا دشمنی ہے؟ اس لڑکے نے کہا! اللہ زوجل بادشاہ سلامت کو قائم رکھے سب میرے ساتھ ٹھیک ہیں مگر میرے حاسد مجھ سے ناراض ہیں اور وہ اس وقت راضی ہوں گے جب مجھ سے آپ کا قرب جدا ہو جائے گا اللہ عزوجل آپ کا سایہ ہمیشہ میرے سر پر سلامت رکھے میں تو کوشش کرتا ہوں کہ کسی کا دل نہ دکھاؤں مگر میں اس حاسد کا کیا کروں جو خود بخود اپنا دل جلایا کرتا ہے۔حاسد کو موت ہی اس کے حسد سے نجات دلا سکتی ہے اور موت کے سوا اس کی بیماری کا کوئی اور علاج نہیں ہے اگر کوئی اندھا سورج کو نہیں دیکھ سکتا تو اس میں سورج کا کیا قصور؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ہزار آنکھوں کا اندھا ہونا سورج کے سیاہ ہونے سے بہتر ہے۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں ایک سپاہی کے بیٹے کا قصہ بیان کرتے ہیں جو اپنی فہم و فراست میں بے مثل تھا اس کے حاسدوں نے بادشاہ سے اس کی شکایت کی اور بادشاہ نے جب اس دشمنی کی اس لڑکے سے وجہ دریافت کی تو اس نے کہا! کہ میں حاسدوں کا کیا کر سکتا ہوں ؟جو خواہ مخواہ خود کو جلاتے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم بجائے کسی کی خوبیوں سے حسد کرنے کے اپنے اندر بھی وہ اوصاف پیدا کریں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑیوں کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے نیز موت کے سوا حسد کا کوئی علاج نہیں اور حاسدوں کو ان کی موت ہی حسد سے نجات دلا سکتی ہے۔