مخلوق سے خدا کی معرفت کا مطلب
تفسیر [میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو میں نے مخلوق کی تاکہ پہچان لیا جاؤں] کا بیان
مخلوق سے خدا کی معرفت کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدائی صفات حاصل کر لیتا ہے تو اس کے ذریعے اسے خدائی صفات کی معرفت نصیب ہوتی ہے۔
مجاہدات کے ذریعے جسم کو اگر فنا کر دیا جائے تو وہ خزانہ ہاتھ آتا ہے کہ اس ویران شدہ گھر جیسے سینکڑوں گھر اس کے ذریعے تعمیر کیے جا سکتے ہیں اگر جسم کو آخر کار فنا ہونا ہی ہے لیکن مزدوری تو محنت کرنے کے بعد ہی ملتی ہے اگر اسے فنا کرنے میں تیری محنت شامل نہیں تو غیبی خزانے تیری مزدوری کے لیے تجھے ہرگز نہیں ملیں گے اسی لیے کہ انسان کو اس کی محنت اور کوشش کا ہی ثمرہ ملتا ہے جب خزانہ نمودار ہوگا اور وہ تیرا نہ ہوگا تو پھر تو افسوس ہی کرے گا اس وقت نصیحت پر عمل نہ کرنے سے تو افسوس ہی حاصل ہوگا۔جسم کا گھر تیری ملکیت نہیں یہ تو کرائے اور عارضی کا گھر ہے یہ کرایہ داری موت کے وقت تک کی ہے اور اسی لیے ہے کہ اس پر عمل کرے کھانے پینے کے ذریعے تو جسم کو تندرست رکھتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ اس طرح تو اس کی شکست ہ ریخت کی رفو گری کر رہا ہے تو اللہ عزوجل کے خلیفہ کی اولاد ہے اور اسی عارضی دکان یعنی جسم کے مجاہدہ کو ختم کر پھر اس میں سے زر و جواہر کی دکانیں برامد ہوں گی ایک وقت آئے گا کہ یہ عرضی جس تجھ سے لے لیا جائے گا اور تو اس میں مدفون کان سے محروم رہ جائے گا۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ پھر ان بندوں کے لیے حسرت ہے۔
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں فرمان الہی [میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو میں نے مخلوق کی تاکہ پہچان لیا جاؤں] کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مخلوق سے خدا کی معرفت کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدائی صفات حاصل کر لیتا ہے تو اس کے ذریعے اسے خدائی صفات کی معرفت نصیب ہوتی ہے۔
یعنی مجاہدات کے ذریعے جب انسان خود کو فنا کر لیتا ہے تو پھر اسے وہ خزانہ ملتا ہے جس کی طلب و جستجو میں کئی فنا ہو گئے جسم کا گھر انسان کی اپنی ملکیت نہیں بلکہ یہ تو عارضی ہے اگر تم نے اس پانی دنیا میں رہ کر اخرت کی کچھ تیاری نہیں کی تو پھر اللہ عزوجل کے فرمان کے مطابق تمہارے لیے حسرت کے سوا کچھ باقی نہ رہے گا۔