خاصان خدا کا حال
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سیاحت کے دوران کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ایک ایسے بزرگ کے ہمراہ سفر کر رہا تھا کہ خشکی کا سفر ختم ہوا اور دریا کا سفر شروع ہو گیا تو میں کرایہ دے کر کشتی پر سوار ہو گیا ان بزرگ کے پاس کچھ نہ تھا اس لیے وہ کرایہ ادا نہ کر سکے اور ملاح بولا بغیر کرایا کہ انہیں کشتی میں سوار کرنے سے انکار کر دیا مجھے اپنے ہمسفر کی اس حالت پر بے حد افسوس ہوا اور میری آآنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
ان بزرگ نے میری جانب دیکھا تو زور سے ہنسے اور کہنے لگے کہ اے سعدی! تو کیوں غم کرتا ہے جو دریا اس کشتی کو دوسرے کنارے پر لے جا سکتا ہے وہ مجھے بھی دوسری جانب لے جا سکتا ہے یہ کہہ کر انہوں نے اپنا مصلےکو پانی پر بچھا دیا مجھ پر یہ دیکھ کر ہیبت طاری ہو گئی اگلی صبح جب میں دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچا تو وہ بزرگ وہاں پہلے سے موجود تھے انہوں نے دیکھ مجھے دیکھ کر کہا کہا اے سعدی! حیران نہ ہو تجھے کشتی نے دریا پار کروایا اور مجھے میرے اللہ نے دریا پار کروا دیا۔اے سعدی! کیا تو اس بچے کی حالت سے واقف نہیں جسے آگ کی ہلاکت آفرینی سے کوئی واقفیت نہیں ہوتی لیکن اس کی مہربان ماں اس کی حفاظت کرتی ہے بس یہی خاصان خدا کا حال ہے کہ ان کے لیے آگ گلزار اور دریا پایاب ہو جاتے ہیں یہ معزز لوگ ایسے مقام میں ایک قطرے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے اور اگر بادشاہ حقیقی اپنی عظمت کا علم بلند کرے تو کائنات کا نام و نشان ہی مٹ جائے۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ شکایت میں اپنی سیاحت کے دوران پیش آنے والے ایک واقعے کو بیان کرتے ہیں اور اس سفر میں ملنے والے ایک بزرگی کی کرامت بیان کرتے ہیں ان بزرگ نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو نسایت نصیحت کی کی خاصان خدا کی خاصیت یہی ہے کہ وہ کسی بھی فعل کو اپنا نہیں سمجھتے اور اسے اللہ عزوجل کیا تھا جانتے ہیں۔