خالد کی ٹوپی
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار تھے آپ جس میدان جنگ میں تشریف لے جاتے اپنی ٹوپی کو ضرور سر پر رکھ کر جاتے اور ہمیشہ فتحیاب ہو کر لوٹتے کبھی شکست کا منہ نہ دیکھتے ایک مرتبہ جنگ یرموک میں جب کہ میدان جنگ گرم ہو رہا تھا حضرت خالد کی ٹوپی گم ہو گئی آپ نے لڑنا چھوڑ کر ٹوپی کی تلاش شروع کر دی۔
لوگوں نے جب دیکھا: کہ تیر اور پتھر برس رہے ہیں تلوار اور نیزہ اپنا کام کر رہے ہیں موت سامنے ہے اور اس عالم میں خالد کو اپنی ٹوپی کی پڑی ہوئی ہے اور وہ اسی کو ڈھونڈنے میں مصروف ہو گئے تو انہوں نے حضرت خالد سے کہا: جناب ٹوپی کا خیال چھوڑ دیجئے اور لڑنا شروع کیجئے حضرت خالد نے ان کی اس بات کی پرواہ نہ کی اور ٹوپی کی بدستور تلاش شروع رکھی۔
آخر ٹوپی ان کو مل گئی تو انہوں نے خوش ہو کر کہا: بھائیو! جانتے ہو مجھے یہ ٹوپی کیوں اتنی عزیز ہے؟ جان لو کہ میں نے آج تک جو جنگ جی ٹی تھی اسی ٹوپی کی طفیل میرا کیا ہے سب اسی کی برکتیں ہیں میں اس کے بغیر کچھ بھی نہیں اور اگر یہ میرے سر پر ہو تو پھر دشمن میرے سامنے کچھ بھی نہیں لوگوں نے کہا: آخر اس ٹوپی کی کیا خوبی ہے؟ تو فرمایا: یہ دیکھو اس میں کیا ہے؟ یہ حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر انور کے بال مبارک ہیں جو میں نے اسی میں سی رکھے ہیں۔
حضور ایک مرتبہ عمرہ بجا لا نے کو بیت اللہ شریف تشریف لے گئے اور سر مبارک کے بال اتروائے تو اس وقت ہم میں سے ہر ایک شخص بال مبارک لینے کی کوشش کر رہا تھا اور ہر ایک دوسرے پر گرتا تھا تو میں نے بھی اسی کوشش میں آگے بڑھ کر چند بال مبارک حاصل کر لیے تھے اور پھر اس ٹوپی میں اسی لیے یہ ٹوپی اب میرے لیے جملہ برکات و فتوحات کا ذریعہ ہے میں اسی کے صدقے میں ہر میدان کا فاتح بن کر لوٹتا ہوں پھر بتاؤ یہ ٹوپی اگر نہ ملتی تو مجھے چین کیسے آتا۔ (حجۃ اللہ علی العالمین)
سبق
حضور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہی جملہ برکات و انعامات کا ذریعہ ہے اور آپ کا بال بال شریف برکت و رحمت ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرام علیہم رضوان حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اشیاء کو بطور تبرک اپنے پاس رکھتے تھے اور جس کے پاس آپ کا بال مبارک بھی ہوتا تھا اللہ تعالی اسے کامیابیوں سے سرفراز فرماتا تھا۔