جس نے دنیا زیادہ دیکھی ہو وہ جھوٹ بھی زیادہ بولتا ہے
ایک شخص نے مکاری کرتے ہوئے اپنے بال گوند لیے اور ظاہر کرنے لگا جیسے وہ علوی ہو اور حضرت سیدنا علی المرتضی کی اولاد میں سے ہے پھر وہ حاجیوں کے ایک قافلے میں شامل ہو کر شہر میں داخل ہوا تاکہ لوگ اسے حاجی سمجھے اس نے ایک عمدہ قصیدہ بادشاہ کی شان میں لکھا اور دعوی کیا کہ یہ قصیدہ اس کا ہے اس سے لوگ جان لیں کہ وہ ایک شاعر بھی ہے۔
بادشاہ نے اس کا قصیدہ سنا تو اسے انعام و اکرام سے نوازا اور اس کے ساتھ نہایت نرمی کا برتاؤ رکھا وہ دریائی سفر کے بعد اس کے دربار تک آیا ہے اور وہ اسی سال کا ہے میں نے اسے عید الاضحی کے دن اسے بصرہ میں دیکھا۔
سب جان گئے کہ وہ حاجی نہیں ہے ایک نے دوسرے سے کہا! کہ میں اسے جانتا ہوں اس کا باپ عیسائی تھا اور شہر ملاتیہ میں رہتا تھا سب جان گئے کہ اس کا نسب علوی نہیں ہے اور اس نے جو قصیدہ پڑھا ہے وہ دیوانے انوری میں سے ہے۔
جب اس شخص کے تینوں دعوے جھوٹے نکلے تو بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کو مار مار کر شہر بدر کر دو کی اس نے پے در پہ اتنے جھوٹ بولے ہیں جب اس شخص کو علم ہوا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ ایک بات میری ابھی باقی اگر وہ جھوٹ ہوئی تو پھر مجھے جو سزا دی جائے گی میں اسے قبول کر لوں گا۔
بادشاہ نے پوچھا کہ وہ بات کیا ہے؟ اس نے عرض کی کہ اگر کوئی آپ کی خدمت میں چھاچ لے کر آئے تو وہ کیا ہے بس دو پیالہ پانی اور ایک چمچہ دہی اگر آپ سچی بات سننا چاہتے ہیں تو سنیے جس نے دنیا زیادہ دیکھی ہو وہ جھوٹ بھی زیادہ بولتا ہے بادشاہ نے اس کی بات سنی تو مسکرا دیا۔
بادشاہ نے کہا تو نے ساری زندگی میں اس سے سچی بات نہیں کی ہوگی پھر بادشاہ نے حکم دیا کہ یہ جو مانگتا ہے اسے عطا کیا جائے اور پھر اسے ہنسی خوشی رخصت کیا گیا۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں ایک بہروپیے کا قصہ بیان کرتے ہیں جس نے پے در پہ جھوٹ سے کام لیا پھر جب اس کا جھوٹ کا پول کھل گیا تو اس نے بادشاہ کے سامنے ایک تلخ سچ بولا کہ جس نے دنیا زیادہ دیکھی ہو وہ جھوٹ بھی زیادہ بولتا ہے بس یاد رکھو کہ انسان پیٹ کی خاطر کتنی مکاری سے کام لیتا ہے پھر اسے جھوٹ سچ کی کوئی تمیز نہیں رہتی۔
گوشہ نشینوں نے خود پر کتے کے دانت اور انسانوں کے منہ بند کر دیے