جسم خاکی ہے اور روح بحر وحدت سے وابستہ ہے
اے سالک! انسان تو بتخ کے ایک انڈے کی مانند ہے جس کو گھریلو مرغ نے اپنے پروں کے نیچے لے کر پالا ہے تیری ماں کا تعلق پانی سے ہے لیکن دایہ کا تعلق خشکی سے ہے تیرا کرنے کی طرف ملان ماں کے ساتھ تیری نسبت کی وجہ سے ہے اور خشکی کی جانب تیرا ملان تیری دایہ کے ساتھ نسبت کی وجہ سے ہے دایہ کی خشکی کو چھوڑو اور بطخوں کی جانب حقیقت کے سمندر میں آجا اگر تجھے دایہ پانی سے ڈرائے تو خوف محسوس نہ کر انسانی جسم روحانیت کے سفر میں بڑی رکاوٹ ہے اسے زیادہ اہمیت نہ دے۔
جسم خاکی ہے اور روح بحر وحدت سے وابستہ ہے تو کرم کی وجہ سے خشکی اور دریا دونوں میں قدم رکھتا ہے جس طرح حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہونے کی وجہ سے اس عالم دنیا سے متعلق ہے اور ساتھ ہی ان کی روح مسلسل وحی عالم والا سے متعلق رہتی تھی ایسا ہی حال شیخ کامل کا ہوتا ہے اور شیخ کامل بحر کی مانند ہے اور ہم مرغ آب کی مانند۔
شیخ کامل ہماری باتیں سمجھتا ہے دریائے وحدت میں جب شیخ کامل کی مانند کودو گے تو تمہاری حفاظت کے لا تعداد سامان پیدا ہو جائیں گے جو تمہیں ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھیں گے تم خود کو بڑا سمجھتے ہو اس لیے شیخ کامل کے ہاتھ دینے میں غیرت کے خلاف محسوس کرتے ہو اور اسی لیے تم پر شیخ کامل کی حقیقت عیاں نہیں ہوتی اگر انسان کو انجام کی بھلائی پر یقین ہو تو اس کے لیے مقصد کے حصول کی تکالیف آسان ہو جاتی ہے۔
انسان اپنی غفلت کی بدولت ادنی مطلوب کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اعلی مقصد سے غفلت برتتا ہے وہ دنیاوی اسباب کو ہی سب کچھ جان لیتا ہے اور اسباب کو پیدا کرنے والے کی جانب متوجہ نہیں ہوتا جو خوش قسمت اسباب کے پیدا کرنے والے پر نگاہ رکھتا ہے اسباب اس کی نگاہوں میں ہیچ ہو جاتے ہیں۔
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ جسم خاکی ہے اور روح بحر وحدت سے وابستہ ہے سالک کو چاہیے کہ وہ خود کو شیخ کامل کے دامن سے وابستہ کر لے کہ وہ تمہارے حال سے واقف ہے انسان اپنی غفلت کی بدولت ادنی کی طلب کرتا ہے اور اپنے علم مقصد سے غفلت برتتا ہے وہ خوش نصیب ہیں جو اسباب کے پیدا کرنے والے کے طلبگار ہیں اور پھر اسباب ان کی نگاہوں میں ہیچ ہیں۔