jise noore haq hasil ho gaya use budhapa kuch nuqsan nahi pahuncha sakta

جسے نور حق حاصل ہو گیا اسے بڑھاپا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا

جسے نور حق حاصل ہو گیا اسے بڑھاپہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا ایسے شخص کے عضا کے ساتھ مست کے اعضا کی سستی کی مانند ہے جو ستم جیسے پہلوان کے لیے بھی رشک کا باعث ہے ایسا انسان جب مرتا ہے تو اس وقت اس کے رگوں میں اللہ زل سے ملاقات کا اختیار ہوتا ہے۔

جو شخص انوار الہی سے محروم ہے اس کی مثال بے پھل کے باغ کی سی ہے جسے خزا نے ختم کر ڈالا باغ کی ایسی حالت اس کی خود بینی کی وجہ سے ہوئی جو کہ بہت بڑا جرم ہے جیسے معشوق کے عشق میں عالم روتا ہے اب وہی عالم اس کو اپنے سے دور بھگاتا ہے اس نے ایسا کیا جرم کیا؟

اس کا جرم یہ ہے کہ اس نے حسن کو اپنی ملکیت جانا ہم اس سے حسن کو اس لیے واپس لے لیتے ہیں تاکہ سب جان جائیں کہ حسن دراصل ہماری ملکیت ہے اور دنیا کے حسین ہمارے کوشہ چین ہیں تاکہ یہ حسین سمجھ جائیں کہ یہ حسن کا لباس مانگا ہوا ہے اور اللہ عزوجل کی ایک تجلی تھی اور درحقیقت تمام خوبیاں تو اللہ عزوجل ہی کے لیے ہیں اور یہ کائنات حقیقت میں اسی کا مظہر ہے۔

کائنات میں موجود سب خوبیاں عارضی ہیں اور یہ پھر اپنے مرکز کی جانب لوٹ جاتی ہیں ان کا ظہور ایسے ہی ہے جیسے سہ رنگے آئینے میں سورج کی روشنی نظر آتی ہے جس طرح سورج کا نور ایک ہی رنگ کا ہے اور مختلف شیشوں میں مختلف نظر آتا ہے اسی طرح اس کی صفات ہیں اور جب وہ مظاہر باقی نہیں رہتے تو صرف ایک رنگ نور کا باقی رہ جاتا ہے۔

انسان کو صفات خداوندی کے بغیر مظاہر کا مشاہدہ کرنا چاہیے تھا کہ کائنات کے فنا ہونے کے بعد بھی وہ اس نور کا مشاہدہ کر سکے تو نے مظاہر کے ذریعے اس کی صفات کے مشاہدے کی عادت خود کو ڈال رکھی ہے حضرت حق اپنی صفت حسن کو واپس لے لیتے ہیں تاکہ تو جان سکے کہ یہ حسن تیرے پاس عارضی تھا۔

جسے نور حق حاصل ہو گیا اسے بڑھاپا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتااگر تو اس نعمت کے زوال پر بھی اللہ عزوجل کا شکر ادا کرے گا تو وہ تجھے اسے سینکڑوں گنا زیادہ عطا فرمائے گا اگر حسن کے جانے پر تو نے شکر ادا نہیں کیا تو پھر خون کے آنسو بہاتا رہے گا عوض تو شکر گزار کو ملتا ہے نہ کی ناشکرے کافر کو کفار کے اعمال رائگا جاتے ہیں اور اللہ عزوجل نے مومنوں کے قلوب کی اصلاح کر دی ہے نا شکر سے حسن اور خوبی اس طرح زائل ہوتی ہے کہ پھر اس کا نشان بھی باقی نہیں رہتا پھر کافر کو اپنے اوصاف حسنا یاد بھی نہیں آتے۔

ہمیشگی دولت صرف شکر گزاروں اور وفاداروں کو ہی ملتی ہے قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے: کہ اللہ عزوجل کو قرض حسنہ دو پس اس حکم پر عمل کرنے سے ہی تجھے بہترین اجر مل سکتا ہے انسان اپنی ضروریات کو کم کر کے دوسروں پر خرچ کرتا ہے تب ہی اسے آخرت میں بہترین اجر ملتا ہے جو سخی دوسروں پر خرچ کرے گا دولت آخرت اسی کے حصے میں آئے گی اور اللہ عزوجل انہیں بہترین جزا عطا فرما کر انہیں خوش کر دے گا جو کچھ انہوں نے خرچ کیا اس کو بڑھا کر انہیں واپس کیا جائے گا۔

اللہ عزوجل موت کو حکم دے گا کہ ان شکر گزاروں سے تو نے جو کچھ چھینا وہ ان کو لوٹا دے موت ان کو دنیاوی مال دینا چاہے گی تو وہ اسے قبول کرنے سے انکار کر دیں گے کہ انہیں اب آخروی مالداری میسر آگئی ہے اور وہ کہیں گے کہ ہم صوفی ہیں اور اپنا سب کچھ لٹا چکے ہیں اب ہم اسے ہرگز واپس نہ لیں گے اب اللہ عزوجل نے ہمیں وہ اجر عطا فرما دیا ہے جس کے بعد ہمیں دنیاوی مال و زر کی کوئی حاجت نہیں ہے۔

دنیاوی چیزیں شور زدہ پانی کی مانند ہیں اور آخرت کی نعمتیں سر چشمہ کوثر ہیں ایسا انسان دنیا کو کہہ دیتا ہے کہ ہم راہ خدا کے شہیدان ہیں اور تیری ان ان ایتوں کو تیرے منہ پر مارتے ہیں تاکہ دنیا جان لے کے اللہ عزوجل کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جو دنیا کو بے کار سمجھتے ہیں یہ مردان خدا دنیا کی مونچھیں اکھاڑ پھینکتے ہیں اور ہر معاملے میں اللہ عزوجل کی مدد کے لیے قلعے پر جھنڈے اکھاڑ دیتے ہیں یہ فنا کے بعد بقا کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں اور پھر سے زندہ ہو جاتے ہیں ان کے جملہ مشکلات بفضل تعالی کھل جاتی ہے اور ان کا مشرک نفس بسمل ہو جاتا ہے۔

فنا سے جو نا امیدی پیدا ہوئی تھی وہ سب امید میں بدل گئی اور ان کے لیے یہ دنیا پاک جگہ بن جاتی ہے اس فنا کے بعد ان کو ابدی زندگی نصیب ہوتی ہے عالم غیب میں ایسے لوگ سورج کی مانند ہوتے ہیں اور سورج ان کے مقابلے میں ستارے کی مانند ہوتا ہے اب آپ پوچھیں گے کہ نیستی میں ہستی چھپی ہوئی کیسے ہو سکتی ہے؟ کیونکہ نیستی اور ہستی دو متضاد چیزیں ہیں اور ایک دوسرے میں کیسے چھپی ہوئی ہو سکتی ہیں؟

جواب یہ ہے: کہ یہ ایسے ممکن ہے جیسا کہ نطفے سے جو کہ غلاظت ہے اور نیسی ہے اس سے زندہ بچہ پیدا ہو جاتا ہے تمام عابدوں کی امیدیں غیب اور عدم سے وابستہ ہیں کاشت کار جس نے بیج بو کر اپنی کوٹھی خالی کر لی وہ اسی پیداوار پر خوش ہے جو کہ ابھی عدم میں ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ وہ عدم سے وجود میں آئے گی۔

بس ہر انسان کو چاہیے کہ جو کچھ اس کے لیے پردہ غیب میں ہے وہ اس کا منتظر رہے گا تاکہ وہ جان لے کہ نیکی سے لامحالہ آرام میسر آئے گا پردہ غیب کو چیزوں کو ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ورنہ موجود پرستوں کو غیر یعنی آخرت پرست بنا دیتا حضرت حق تعالی کی کار گاہ عدم ہے جس سے وہ عطایہ عنایت کرتا رہتا ہے۔

درحقیقت یہ دنیا غیر موجود نظر آتی ہے اور آخرت حقیقتا موجود ہے لیکن نظر نہیں آتی جیسا کہ ہوا کو غبار وغیرہ نے پوشیدہ کر رکھا ہے جو غیر واقعی چیزیں ہیں تو جو معدوم ہے وہ نظر آرہا ہے اور جو مخفی ہے وہ موجود ہے گرد کا بگولہ اٹھتا ہے تو خاک نظر آتی ہے لیکن اصل محرک یعنی ہوا نظر نہیں آتی مگر اس کا وجود اس لیے سمجھا جاتا ہے کہ خاک میں خود اڑنے کی طاقت نہیں۔

جسے نور حق حاصل ہو گیا اسے بڑھاپا کچھ انسان کو افکار پوشیدہ ہیں اور اس کے گفتگو جس کا وجود افکار کے وجود کا پر تو ہے وہ ظاہر ہے اور یہی حال وجود مطلق سے ہے جو کہ حقیقت ہے وہ بظاہر غیر موجود ہیں اور موجود نظر آتی ہیں ہم نے اپنی کم عقلی کی وجہ سے معدوم کو موجود اور موجود کو معدوم سمجھ رکھا ہے یہ ہماری نظر کا قصور ہے کہ وہ غیر موجود کو ہمیں دکھا رہی ہے اور جس کی آنکھ میں نیند ہو وہ محض خیالی اور غیر واقعی چیزوں کو موجود دکھا دیتی ہے۔

عالم شہود جو کی معدوم ہے موجود نظر آتا ہے اور عالم غیب ہماری جسمانی آنکھوں سے پوشیدہ ہو گیا ہے یہ حضرت حق تعالی کی سحر افرینی ہے کہ منکر غیر حقیقی سمجھتے ہیں کہ دنیا میں بھی ایسے جادوگر ہوتے ہیں جو چاند کی چاندنی کو کپڑا بنا کر فروخت کر دیتے ہیں دنیا کے متعلق ہماری بھی یہی حالت ہے کہ ہم چاندنی کو کپڑا سمجھ رہے ہیں دنیا دار کی عمر اسی دھوکے میں ختم ہو جاتی ہے اور کچھ بھی حاصل نہیں کر پاتا۔

دنیا میں انسان کے تین ساتھی ہیں دوست مال اور نیک عمل ان میں دو تو مرتے وقت ساتھ چھوڑ دیتے ہیں مگر نیک عمل وفاداری کا مظاہرہ کرتا ہے اور ہمیشہ ساتھ دیتا ہے موت کے وقت محض دوست قبر تک ساتھ دیتے ہیں اور واپس لوٹ جاتے ہیں اور نیک اعمال انسان کی قبر میں بھی اس کے ساتھی ہیں۔

وجہ بیان

مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جسے نور حق حاصل ہو گیا اسے بڑھاپا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا انسان کو چاہیے کہ اس فانی دنیا میں رہ کر آخروی دنیا کے لیے کوشش کرے اور نیک اعمال کرے جو اس کے کام آنے والے ہیں۔

یہ خدائی جذب عام جذب نہیں ہوتا

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You cannot copy content of this page

Scroll to Top