جعل سازی
برادران یوسف نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک عمیق کنویں میں پھینک دیا اور اپنے زعم میں انہیں مار ڈالا پھر آپ کی قمیض مبارک کو کنویں میں پھینکنے کے وقت ان کے بدن سے انہوں نے اتاری تھی اس کو ایک بکری کے خون میں رنگ کر ساتھ لے لیا اور واپس آئے اور جب مکان کے قریب پہنچے تو رونا شروع کر دیا۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان کو اس حال میں دیکھا: تو پوچھا! میرے فرزند کیا ہوا؟ اور یہ تو بتاؤ یوسف کہاں ہے؟ وہ روتے ہوئے بولے: ابا جان! ہم اپس میں ایک دوسرے سے دوڑ کرتے تھے کہ کون آگے نکل جاتا ہے کہ اس دوڑ میں ہم سب بہت دور نکل گئے اور یوسف کو ہم اپنے اسباب کے پاس چھوڑ گئے تھے وہ اکیلا رہ گیا اور ایک بھیڑیا موقع پا کر اسے کھا گیا۔
یہ اس کی خون الود قمیض ہے ابا جان! آپ ہمارا یقین تو نہ کریں گے مگر بات دراصل یہی ہے حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا: بیٹوں تمہارے دلوں نے یہ ایک بات گھڑی ہے اچھا میں تو اب صبر کروں گا اور اللہ ہی سے اس بات میں فیصلہ چاہوں گا۔
(قرآن کریم)
سبق
ظالم اپنا ظلم چھپانے کے لیے بڑی بڑی جال سازیوں سے کام لیتے ہیں اور اپنی مظلومیت ثابت کرنے کے لیے رو کر بھی دکھا دیتے ہیں معلوم ہوا کہ ہر رونے والا ضروری نہیں کہ سچا ہی ہو یہ بھی معلوم ہوا کہ قمیض کو مثنوی خون سے رنگ کر اسے اصل خون بتانا یہ بھی جال سازی ہی ہے۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو اس بات کا سب علم تھا کہ میرے یوسف کو بھیڑیے نے ہرگز نہیں کھایا بلکہ ان کے دل میں یہ بات بنائی ہوئی بات ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاں برادران یوسف نے جال سازی سے رونا چلانا شروع کر دیا وہاں اللہ کے پیغمبر حضرت یعقوب علیہ السلام نے صبر کا مظاہرہ فرمایا گویا صبر کا مظاہرہ یہی حق ہے اور نہ کی چیخنا چلانا۔