انسان کے نیک اعمال سے بہتر اس کا کوئی ساتھی نہیں ہے
انسان کے نیک اعمال سے بہتر اس کا کوئی ساتھی نہیں ہے نیک عمل انسان کا یار بنے گا اور برا عمل اس کے لیے سانپ اور بچھو بنے گا یہ عمل اور ہنر بغیر استاد کے حاصل نہیں ہو سکتا پس چاہیے کہ کسی کو اپنا رہبر بنایا۔
ہر شے کا پہلے علم حاصل کیا جاتا ہے پھر اس پر عمل کیا جاتا ہے اگر تم نصیحت کرنے والوں کو دیکھو تو خاموشی سے سنو کچھ حاصل کرنے کے لیے پڑھو اور متکبر نہ ہو بڑائی کا مدار لباس پر نہیں اس لیے تعلیم حاصل کرنے کے لیے ذلت اور مساکین کا لباس اختیار کرو یاد رکھو کہ علم کتابی زبانی سکھایا جاتا ہے اور ہنر عملی طور پر سکھایا جاتا ہے۔
یقین جانو کی ذات باری تعالی تک پہنچنے کے لیے بھی ہنر علم کے مقابلے میں زیادہ درکار ہے اس ہنر کو سیکھنے کے لیے فقر درکار ہے جو محض شیخ کامل کی صحبت سے ہی حاصل ہوتا ہے نہ کی باتیں کرنے سے اور عمل کرنے سے انوار الہی کا علم اولیاء کے دلوں میں ہے اور کوئی دل ان کے دلوں سے براہ راست حاصل کر سکتا ہے باتوں اور کتابوں کے پڑھنے سے نہیں۔
اس راستہ کے مسافر کے دل میں اگر کچھ اشارے موجود ہوتے ہیں تو وہ ان اشاروں کو سمجھنے سے ابھی محروم ہے جب سالک کے لیے نور خداوندی ان اشاروں کی تشریح کر دیتا ہے تو اللہ عزوجل کی جانب سے علم نشرح کی بشارت مل جاتی ہے۔
قرآن مجید میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا: کہ ہم نے آپ کو شرح صدر نہیں کر دیا یعنی ہم نے آپ کو وہ نور عطا کیا ہے جس سے تمام رموز سے آپ باسانی آگاہ ہو سکتے ہیں۔
اس سورہ میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں تمام باتیں سمجھنے کی استعداد پیدا کی ہے ایک عام انسان سمجھتا ہے کہ علوم و اصرار ذات باری تعالی کہیں باہر سے حاصل ہوتے ہیں یہ غلط ہے بلکہ وہ علوم انسان کے دل اور روح میں موجود ہوتے ہیں میں مخاطب اگرچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن ہر طالب حق اس میں داخل ہے۔
یاد رکھو! ذات حق ہر انسان کے ساتھ ہے لیکن درمیان میں اس انسان کی اپنی ذات حائل ہے دل میں ذات حق کے مشاہدے کی طلب ہونی چاہیے اپنے دل میں اس کے مشاہدے کی طلب پیدا کرو اور در بدر بھٹکتے نہ پھرو۔
حضرت حق کو اپنے آپ سے گھوڑے پر سوار ہو اور اسی گھوڑے کو تلاش کرو لوگ اس سے پوچھیں کہ تو کس چیز پر سوار ہے تو اسے کہنا کہ گھوڑے پر لیکن پھر بھی گھوڑے کی تلاش میں لگے رہو اس گھوڑے کے سوار سے لوگ کہتے ہیں کہ گھوڑا تو تیرے نیچے ہے وہ کہتا ہے کہ ہاں لیکن مجھے گھوڑا نظر ارہا ہے وہ گھوڑے کی تلاش میں مدہوش بنا ہوا ہے اور گھوڑا اس کے سامنے موجود ہے صرف انسان کے خیالات راستے میں مانا بنتے ہیں۔
مطلوب کے نزدیک ہوتے ہوئے مطلوب کا پوچھنا اور مطلوب کا پردہ مطلوب کے نور کی چمک اس کے لیے ابر جیسی آڑ بن جاتی ہے اس کی نظر کا دھوکہ خود اس کی انکھ کا پردہ ہے وہی آنکھ جو آڑ کو ہٹانے والی چیز تھی وہ فورا خود آڑ بن گئی ایسے طلبگار کا کان خود اس کو بہرا بنا دیتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسان کو پورا گندا خیالوں سے بچنا چاہیے اور یقین رکھنا چاہیے کہ ذات باری تعالی میری شہ رگ سے زیادہ قریب ہے اور اس کے مشاہدے کی کوشش کرنی چاہیے کہ یہ اس کا غم بن جائے۔
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ انسان کو برے خیالات کو دل میں ہرگز جگہ نہیں دینی چاہیے اور وسوسہ سے بچنا چاہیے سالک کو چاہیے کہ وہ مشاہدے کی کوشش کرے اور ظاہری علوم کی بجائے باطنی علوم سے خود سنوارنے کی کوشش کرے۔