انسان بننے تک کے تمام مراتب اللہ عزوجل کی قدرت کا مظہر ہے
شاہ ایک رات تخت پر سوئے ہوئے تھے وہ عادل اور منصف تھے اسی لیے وہ اطمینان سے سوتے تھے انہوں نے کوئی ڈنکا پیٹنے والے بھی نہیں رکھے ہوئے تھے رباب کی آواز سے ان کا مقصد وہی تھا جو عشاق کا ہوتا ہے وہ لوگ اس آواز کو اس وعدے کی یاد دلانے والے سمجھتے ہیں جو عہد السد کہلاتا ہے فقیری اور ڈھول کی آواز ان کے لیے نفع الصور اسرافیل سے مشابہت رکھتی ہے۔
حکما کہتے ہیں کہ یہ راز آسمان کی گردش سے لیے گئے ہیں موسیقی کے 12 مقام آسمان کے 12 پرجوں سے مشابہ ہیں موسیقی کی سات آوازیں سات سیاروں سے لی گئی ہیں زمین اور آسمان کے درمیان ہوا موجود ہے اور سب آوازیں ہوا سے ہی پیدا ہوتی ہیں انہی کی نقل تنبورے اور گلے کے ذریعے کی گئی ہے مومن جانتے ہیں کہ یہ سارے راگ اور نغمے حوران بہشت کے گانے اور جنت کی نہروں کے چلنے کی اوازیں اور جنت کے درختوں کے ہلنے کی آوازوں سے بنے ہیں۔ہم اگرچہ جنت میں نہیں تھے کہ وہاں ان کو سن پاتے لیکن چونکہ ہمارے باپ حضرت آدم علیہ السلام تھے اور ہم ان کے اجزا ہیں اسی لیے ہم نے بھی انہیں سنا ہے اس آپ و گل کی دنیا میں رہنے سے ہم جنت کی باتیں بھول چکے ہیں پھر بھی کبھی کبھار وہ ہمیں یاد آجاتی ہیں چونکہ وہ نغمے اب ہمارے جسم سے پیدا ہو رہے ہیں جو آپ و گل سے بنا ہے۔
اس لیے اب اس سے وہ مستی پیدا نہیں ہوتی جو جنت میں طاری ہوتی تھی جنت کے لحن جب انسان ادا کرتا ہے تو اس کی مثال یہ ہے کہ پانی پیشاب میں مل جائے تو ظاہر ہے کہ اس کی پاکیزگی اور لطافت ختم ہو جاتی ہے پیشاب میں ملے ہوئے پانی میں پانی کے خواص کچھ نہ کچھ باقی رہتے ہیں اس کو آگ پر ڈالا جائے تو آگ کو بجھا دے گا اسی طرح لہن میں بھی کچھ نہ کچھ اثرات باقی ہیں اور یہ لہن اتش غم کو بجھا دیتے ہیں۔
ان نغموں کا سماں چونکہ وصل محبوب کا تصور پیدا کرتا ہے اس لیے یہ عشاق کی غذا ہے اگر سامان میں علی جذبات ہوتے تو ان میں ابھار پیدا ہوتا اور خیال تجسم اختیار کر لیتا عشق کی آگ ان نغموں سے تیز ہو جاتی جس طرح اس پیاسے شخص کو پیاس ان اخروٹوں کے پانی میں گرنے سے تیز ہو رہی تھی جو پانی میں گر کر آواز پیدا کر رہے تھے۔
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ بلخ کے بادشاہ اور عظیم المراتب حکمران تھے ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ علیہ مہو خواب تھے کی چھت پر کسی کے چلنے کی اہٹ محسوس ہوئی آپ رحمۃ اللہ علیہ نے آواز دے کر پوچھا کون ہے جواب ملا کہ آپ کا شناسہ ہوں اور چھت پر اپنے اونٹ کی تلاش میں آیا ہوں آپ کو رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :کہ چھت پر اونٹ کس طرح آسکتا ہے جواب ملا تو پھر آپ رحمۃ اللہ علیہ کو تخت و تاج میں خدا کیسے مل جائے گا؟
اس واقعے کے بعد آپ رحمہ اللہ علیہ کے حالات بدل گئے اور آپ رحمہ اللہ علیہ لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو گئے حضرت ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ علیہ کا یوں پوشیدہ ہو جانا ان کے اوصاف باطنی اور مدارج باطنی سے لوگوں کے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ہے اگرچہ وہ ان کے سامنے تھے اسی لیے کی ظاہر بیٹوں کی نگاہ محض ظاہر پر ہوتی ہے وہ اپنی آنکھوں سے استغراق کی وجہ سے دور ہو گئے تو عنقا کی طرح ان کی شہرت ہو گئی۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعوت کی بدولت ملکہ بلقیس کی رعایہ کو مردہ روحیں بھی زندہ ہو گئیں اور جسم میں دبی ہوئی روح نے بھی سر ابھارا وہ لوگ اپس میں ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرنے لگی اور کہے جاتے تھے کہ یہ آسمانی دعوت ہے اور اس دعوت کا خاصہ یہ ہے کہ اس سے لوگوں کا ایمان بڑھتا ہے اور ایمان والوں کا ایمان تازہ ہوتا ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کا یہ واقعہ جو ہم بیان کر رہے ہیں اس کی یقینی باتیں تو اللہ عزوجل ہی بہتر جانتا ہے جو کچھ مشہور ہے وہ بیان کیا گیا ہے حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کو اس کی حال کے مناسبت سے اور اس کے ملک والوں کو ان کے استطاعت کے مطابق رہنمائی فراہم کی شکاری جس قسم کے پرندوں کا شکار کرتا ہے اسی قسم کی سیٹی بجا کر انہیں اکٹھا کرتا ہے اور پھر ان کے احوال کے مطابق انہیں دانہ ڈالتا ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعوت کا یہ اثر ہوا کہ جو اجسان روحوں سے خالی تھے ان میں بھی روحوں نے چہل مچا دی اور اجسام روحانیت کے غالب ہونے کی وجہ سے ارواح بن گئے اس طرح عاشق عوام میں پوشیدہ ہوتے ہیں لوگ سخی کو عموما فضول خرچ کہتے ہیں اور اس سخاوت سے اس کو طرح طرح سے ڈراتے ہیں اس طرح ان کی نظروں سے اس کی سخاوت پوشیدہ رہتی ہے جب تک روح جسم میں دبی ہوئی ہے وہ ذلیل ہے لیکن جب روح غالب آجاتی ہے تو جسم میں بھی شرافت پیدا ہو جاتی ہے۔
اللہ عزوجل نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے فرمایا: کہ لوگوں کو ان کی استطاعت کے مطابق تعلیم دو جو لوگ جبر کے لائق ہیں اور ترک عمل کر بیٹھے ہیں ان کو ان کے عقیدے کے نقصان سے آگاہ کرو وہ لوگ جو ناقص اختیار کے قابل ہیں ان کو صبر انل کی تعلیم دو جو لوگ عالم الغیب سے رکھتے ہیں ان کو علم غیب کی باتیں بتاؤ جو لوگ نور سے محبوب ہیں ان کو نور عطا کرو لڑنے والوں کے مابین صلح کراؤ اور اہل حق اگر غلط مباحثوں میں مبتلا ہیں تو راہ حق کی علامات دکھاؤ ہر ایک کی اس کے حال میں مناسبت سے تربیت کرو۔حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعوت ملنے پر ملکہ بلقیس بھی ایمان کے شوق میں مست ہو گئی ہیں اور اپنے دل سے ملک اور ملکیت کی محبت باہر نکال پھینکی اسے اپنے تخت شاہی سے جو بہت قیمتی تھا اس سے محبت اور تعلق باقی رہا اس ملک میں سب لوگ حضرت سلیمان علیہ السلام پر ایمان لے آئے البتہ وہ لوگ جن میں استطاعت اور قابلیت نہ تھی وہ محروم رہے۔
میرے اس کلام سے یہ شائبہ نہیں ہونا چاہیے کہ معاذ اللہ کہیں وہی میں یہ صلاحیت نہیں کی وہ بد فطرت کی فطرت کو بدل سکے بلکہ وہ بھی اگر متوجہ ہوا اور طلب پیدا کرے تو اللہ عزوجل اس کی بھی مدد کرتا ہے اور اس میں یہ صلاحیت پیدا فرما دیتا ہے۔ملکہ بلقیس اس دعوت کے بعد مال و دولت سے ایسی بے نیاز ہوئی جس طرح عاشق نام ننگ سے بے نیاز ہو جاتا ہے جنہیں غلاموں اور کنیزوں نے اسے ناز سے پالا تھا وہ اس کے لیے سڑا ہوا پیاز بن گئیں تفریق کے تمام اسباب اس کے لیے باعث تکلیف بن گئے عشق اور غصے کی خاصیت یہی ہے کہ جو چیزیں محبوب ہوتی ہیں اس حالت میں مردہ بن جاتی ہیں یعنی جب انسان لا الہ کا قائل ہو جاتا ہے تو اس کے لیے غیر اللہ ہیچ ہو جاتا ہے۔
کلمہ طیبہ کا حقیقی اثر یہی ہے کہ ما سوائے اللہ عزوجل اور سب کچھ نظروں میں بے دقت ہو جاتا ہے اس کو سلطنت کسی چیز کو چھوڑنے کا کچھ افسوس نہ تھا ماسوائے اپنے تخت کے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام بلقیس کی اس کیفیت سے باخبر ہو گئے چونکہ دل سے دل کو راہ ہو چکی تھی اور باہمی تعلق پیدا ہو چکا تھا اور حضرت سلیمان علیہ السلام دور سے چیونٹی کی آواز سن لیتے تھے اور انسانوں کے دلی رازوں سے آگاہ ہو جاتے تھے قرآن مجید میں ہے کہ جب چیونٹیوں کے جنگل میں حضرت سلیمان علیہ السلام پہنچے تو ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں سے کہا: کہ اپنے بلوں میں گھس جاؤ کہیں سلیمان علیہ السلام کا لشکر تمہیں پامال نہ کر دے حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب اس کی بات سنی تو مسکرا دیے۔اگر میں اس بیان کی تفصیل میں جاؤں تو بلقیس کو تخت سے کیوں محبت تھی تو میری یہ گفتگو طویل ہو جائے گی مگر میں پھر بھی مختصرا بیان کرتا ہوں قلم کا تب کا اعلی ہوتا ہے اور وہ اس کے لیے باعث محبت ہوتا ہے ہر قاری گرا کا اعلی اس کے لیے مونث ہوتا ہے محبت کا یہ تقاضا تھکی بلقیس اپنے تخت کو ساتھ لے آئی لیکن چونکہ اس کی لمبائی چوڑائی بہت زیادہ تھی اسی لیے اس کو منتقل کرنا ممکن نہ تھا اس کو ٹکڑے کر کے اس وجہ سے نہیں لایا جا سکتا تھا کہ اس پر بہت نازک اور باریک کام ہوا تھا جو کہ خراب ہو جاتا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام پر بلقیس کے قلب کی حالت واضح ہو گئی تو انہوں نے سوچا کہ روحانی عروج کے بعد تخت وغیرہ کی محبت مٹ جائے گی مگر فی الحال چونکہ اس کو تخت کے رہ جانے کا رنج ہے اسی لیے اس کو منگوانا چاہیے فنا کے بعد جب بقا ملتی ہے تو تمام مادیات بے دفاع ہو جاتی ہے جب سمندر میں سے انسان کو موتی مل جاتا ہے تو انسان اس کے خاص ہوا خواہشات کی جانب نظر نہیں دوڑاتا۔
بلقیس کا تخت سے محبت کرنا اگرچہ بجگانہ فال تھا مگر حضرت سلیمان علیہ السلام نے سوچا کہ اس کا تخت منگوانا چاہیے تاکہ یہ تخت اس کی جان کے لیے عبرت کا نشان بن جائے۔
جس طرح احمد ایاز کے لیے گودڑی اور چپل جن کو دیکھ کر وہ اپنی پہلی حالت یاد کرتا تھا وہ یاد کیا کرے گی کہ اس کی پہلی حالت کیسے خراب تھی کہ وہ تخت جیسی چیزوں سے محبت رکھتی تھی اور دنیا کے خرافات میں مبتلا تھی اب وہ روحانیت کے اعلی مرتبہ پر فائز ہو چکی ہے اللہ عزوجل نے انسان کی خلقت کے مراتب بیان فرما کر فرمایا کہ انسان کو اللہ عزوجل نے اپنے فضل سے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔
انسان کی ابتدا تو ان چیزوں سے ہے جن کا نام لیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے فرمایا: کہ انسان کو منی نے بنایا گیا پھر اس کو نطفہ بنایا گیا اور پھر بنایا اس کے بعد اسے صورت عطا کی گئی۔
انسان زبان حال سے اپنی ابتدائی حالت سے ترقی کا منکر تھا انسان کو اس قدر فضیلت دینا اس انکار کی وجہ ہے کہ جو اس کی فطرت کر رہی ہے جس چیز کو انسان اپنے موافق سمجھے ہوئے ہیں وہی حقیقت جب اس پر اشکار ہوئی تو اسے اس کی مخالفت کرنا پڑی ہماری حیات اور استعداد صرف اللہ عزوجل کی قدرت سے وجود میں ائی ہے انسان ابتدا میں ایک نطفہ تھا اور آج بھی وہ اسی حالت میں ہے کہ حشر و نشر کا انکار کرتا ہے۔
یہ اللہ عزوجل ہی کی قدرت کا کرشمہ ہے تو پھر اس کا حشر نشر اللہ عزوجل کی قدرت سے باہر کیسے ہو سکتا ہے جب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ جمادیت کی بدولت اس مرتبہ پر پہنچا ہے تو اس میں انکار کی صلاحیت پیدا ہو گئی تو اس کے انکار کی یہ صلاحیت اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا حشر دوبارہ ہوگا۔
انسان بننے تک کے مختلف مراتب اللہ عزوجل کی قدرت کا مظہر ہیں ان کے ہوتے ہوئے بھی حشر کا انکار کب تک اور کیسے ہو سکے گا۔
اگل کا مرتبہ انکار تک ترقی کرنا خود حشر کے انکار کی نفی کرتا ہے گھر کے اندر سے خود اپنے اندر نہ ہونے والی خبر دینے کو خبر دینا نہیں سمجھا جاتا اس معاملے میں اور بھی بے شمار دلائل دیے جا سکتے ہیں مگر ان دلائل میں جاہلوں کی لغزش کا خطرہ موجود ہے اسی لیے اس معاملے میں خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔
وجہ بیان
مولانا رومی رحمہ اللہ علیہ شکایت میں حضرت ابراہیم بن ادھم رحمہ اللہ علیہ کے تائب ہونے اور پھر حضرت سلیمان علیہ السلام اور بلقیس کے مابین نازک مسئلے کو بیان کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ انسان کو اپنی تخلیق سے واقف ہونا چاہیے کہ اس کی تخلیق ایک غلیظ شے منی سے ہے انسان بننے تک اس کے تمام مراتب اللہ عزوجل کی قدرت کا مظہر ہیں۔