ایمان اور توکل اختیار کرو شیطان تم پر غالب نہیں ہوگا
ماں نے بچے سے کہا: کہ اگر تمہیں کوئی ڈراؤنا خواب آئے یا پھر قبرستان میں یہ خیال ہو کہ کوئی خوفناک چیز گھات لگائے بیٹھی ہے تو دل کو مضبوط کر کے اس پر حملہ کر دینا وہ بھاگ جائے گا بچے نے کہا! کہ اگر اس کی ماں نے بھی اسے یہی بات سمجھائی ہوئی ہوگی تو وہ آکر میرے گلے سے چمٹ جائے گا جس طرح تم مجھے سمجھا رہی ہو اس خیال کی بھی کوئی ماں اور ہوگی جس نے اسے اسی طرح سمجھایا ہوگا۔
اگر شیطان کے متعلق کوئی ایسا سوال کر لے جیسا کہ اس بچے نے اپنی ماں سے کیا تو قرآن مجید میں شیطان کے متعلق ہے کہ شیطان ان لوگوں پر ہرگز غلبہ نہیں پا سکتا جو کہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں اور ایمان والے ہیں یعنی ایمان اور توفل اختیار کرو شیطان تم پر غالب نہیں ہوگا۔
اگر کسی نے یہ سوال کیا: کہ شیطان کو بھی ایسی ہی تعلیم دی گئی ہوگی؟ تو اس کا کیا علاج ہے؟ تو اس کا آسان جواب یہ ہے کہ خیال کے متعلق جو ماں بچے نے اہتمال کیا ہے شیطان کے معاملے میں یہ احتمال نہیں ہوگا اسی لیے کہ یہاں تو سمجھانے والی ذات ایک ہی ہے۔
سوال کرنے والے نے کہا: کہ اگر وہ تدبیر بھی کام نہ آئے تو پھر اس راز کو معلوم کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس نے جواب دیا: کہ صبر اس کے سامنے بیٹھا رہوں گا۔
اب جو خیالات میرے قلب پر منعکس ہوں گے اگر وہ دنیاوی حالت نہیں ہیں تو میں سمجھوں گا کہ یہ خیالات اس نے میرے دل میں ڈالے ہیں یعنی اس کے قلبی خیالات ہیں جب اس کے ضمیر کا اثر میرے دل پر پڑتا ہے تو میں اس کی بزرگی کا قائل ہو جاتا ہوں اور اس کا شکر گزار ہوتا ہوں کہ جان لیتا ہوں کہ یہ مبارک قلبی خیالات اس مبارک شخص کے دل کی جانب سے آئے ہیں اسی لیے کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے اب القائے مضامین کا سورج میرے دل کے سوراخ سے ڈھل گیا ہے اور میں کتاب کو یہیں ختم کرتا ہوں اور اللہ خوب جاننے والا ہے کہ اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے۔
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ یہاں ایک ماں اور بچے کا مکالمہ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ایمان اور توکل اختیار کرو شیطان تم پر غالب نہیں ہوگا نیز آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنی مثنوی کا اختتام اس بات سے کرتے ہیں کہ مثنوی کے تمام مضامین میں میری قلبی واردات نہیں بلکہ میرے مرشد کامل حضرت شمس الدین تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کے قلبی واردات کا آغاز ہیں چونکہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے اسی لیے ان کے قلب سے میرے قلب میں منتقل ہوئے ہیں۔