حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیٹ ٹو مہمان

کچھ مشرق مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم دور سے آئے ہیں آپ ہم پر مہربانی فرمائیں۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: کہ تم انہیں تقسیم کر لو اور تم سب محبت سے بھرے ہوئے ہو۔

بادشاہ کی سیرت اس کے لشکریوں پر اثر کرتی ہے بادشاہ کو دشمن پر غصہ ہوتا ہے اسی لیے اس کے لشکری تلوار چلاتے ہیں بادشاہ اپنے لشکر میں روح کی مانند ہے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ لوگ اپنے بادشاہوں کے مذہب پر ہوتے ہیں سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک ایک مشرک کو مہمان بنا لیا۔

ان مشرکین میں سے ایک بہت پیٹو تھا اور خوب موٹا تازہ تھا وہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی رہ گیا اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان بنا۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سات بکریاں تھی وہ مشرک مہمان ان بکریوں کا دودھ اور جو کچھ اس وقت گھر میں کھانے کو موجود تھا سب کھا پی گیا گھر والوں کو بھوکا رہنا پڑا سوتے وقت وہ مہمان جب حجرے میں آرام کرنے لگا تو لونڈی نے غصے سے دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی۔

آدھی رات کے وقت اس کے پیٹ میں گڑبڑ شروع ہوئی ہے وہ دروازے کی جانب بھاگا مگر دروازہ اس سے نہ کھلا اس نے قضائے حاجت کو روکنے کی یہ تدبیر کی کہ وہ سو گیا اس کا باطن چونکہ ویران تھا اسی لیے اس نے خواب میں ایک ویرانہ دیکھا اور اسے پاخانے سے بھر دیا اس کے دل میں اس نازیبا حرکت سے بہت پریشانی ہوئی اور کہنے لگا: کہ میرا جاگنا سونے سے بہتر ہے کہ میں جاگنے سے زیادہ کھا لیا اور سوتے میں بستر پر پاخانہ کر دیا اور مشرکین بروز محشر اسی طرح واویلا کریں گے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس مشرک مہمان کی اس حرکت کی خبر ہوئی تو آپ نے اس کے حجرے کا دروازہ پھر بھی نہ کھولا تاکہ اس کو شرمندگی ہو اور یہی شرمندگی اس کے ایمان لانے کا باعث بنے۔

پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی دروازہ کھول کر چھپ گئے تاکہ اس کو مزید شرمندگی کا احساس نہ ہو یا پھر اللہ عزوجل نے انہیں اپنے دامن میں چھپا لیا اللہ عزوجل نگاہوں پر کبھی اس طرح پردہ ڈال دیتا ہے کہ انسان اپنے پہلو میں موجود دشمن کو بھی نہیں دیکھ سکتا۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال کا علم ہو چکا تھا لیکن اللہ عزوجل کی حکمت یہ تھی کی آپ دروازہ نہ کھولیں رات میں دروازہ نہ کھلنا بظاہر اس مشرک کے ساتھ دشمنی تھی لیکن اس میں اس کے لیے ایک بھلائی پوشیدہ تھی جب اس مشرک نے دروازہ کھلا ہوا دیکھا تو وہاں سے چھپ کے سے بھاگ نکلا اس کے لیے مناسب تو یہی تھا کہ وہ پاخانے کو خود دھوتا۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیٹ ٹو مہمانحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سادہ لو صحابی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر دکھایا اور کہا: کہ آپ کے مہمان نے یہ کیا کیا ہے؟

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: کہ پانی کا لوٹا لے آؤ تاکہ میں اسے دھو دوں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ یہ کام ہم کرتے ہیں اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کے دل و جگر تھے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ ہماری زندگی کا مقصد صرف آپ کی خدمت ہے اور ہم یہ خدمت نہیں کر سکتے تو ہماری زندگی بے کار ہے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ مجھے ان باتوں کا یقین ہے لیکن یہ کام میں اپنے ہاتھوں سے خود کروں گا کہ میں اس میں کچھ حکمت پوشیدہ ہے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بستر کو اللہ عزوجل کے فرمان کے مطابق دھو رہے تھے وہ مشرک مہمان جلدی میں اپنی مورتی وہیں بھول گیا تھا اور اگرچہ وہ اپنی اس حرکت پر بے حد شرمندہ تھا مگر اس مورتی کی حرص نے اسے واپس لوٹنے پر مجبور کر دیا وہ واپس آیا اور اس نے دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھوں سے اس کی نجاست دھو رہے ہیں۔

بیعت رضوان کے موقع پر اللہ عزوجل نے وہی فرمائی تھی کہ اللہ عزوجل کا ہاتھ ان لوگوں کے ہاتھ کے اوپر ہے تو گویا اللہ عزوجل نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا تھا وہ مشرک مہمان یہ منظر دیکھ کر متاثر ہوا اور اپنی مورتی کو بھول گیا وہ دیوانہ وار اپنا سر دیواروں کو مارنے لگا۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اس حالت پر ترس آگیا وہ نعرے مارتا اور کہتا تھا کہ ان کی مخالفت سے بچو وہ مشرک کہنے لگا: کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذات بابرکت مجموعہ عالم ہے اور اللہ عزوجل کے حکم کے تابع ہیں جبکہ میں ایک ادنی عاجز ہو کر ظالم اور سرکش بنا ہوا ہوں اس لمحے اس نے اپنا منہ اسمان کی جانب کیا اور کہا کہ میرا منہ اس لائق نہیں کی میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جا سکوں۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیٹ ٹو مہمانحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اس بے قراری کو دیکھتے ہوئے اسے سینے سے لگایا اور اسے حوصلہ دیا اور اسے نور ایمان عطا کیا جب تک ابر روتا نہیں چمن کب مسکراتا ہے بچہ روتا ہے تو ماں کے اندر دودھ جوش مارتا ہے کیا تم نہیں جانتے کہ وہ جس نے ماؤں کو دودھ دیا وہ بھی بغیر روئے عطا نہیں کرتا۔

قرآن مجید میں ہے کہ وہ بہت روئیں اور اللہ عزوجل کی رحمت بغیر گریہ کے متوجہ نہیں ہوتی اگر عالم میں سورج کی گرمی اور ابر کا پانی نہ ہو تو اجسام کی نشونما ممکن نہ تھی انسان کو بھی اپنی روح کی نشونما کے لیے عقل میں سوزش اور آنکھ میں آنسو درکار ہیں اسی طرح جسم کو گھٹاؤ اور روح کو بڑھاؤ۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے: کہ اللہ عزوجل کو قرض حسنہ دو یہاں قرض کے معنی اللہ عزوجل کی راہ میں اپنے بدن کو گھٹانا ہے جسمانی خوراک کی لالچ نہ بناؤ کہ تم جنت کی سیر کر سکو جسم فضولیات سے خالی ہوگا تو اسرار و انوار سے پر ہوگا جسم کی ناپاکی دور ہوگی تو پاکیزگی حاصل ہوگی۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ بے شک اللہ عزوجل چاہتا ہے کہ اے اہل بیت تم سے ناپاکی دور کر کے اور تمہیں صاف پاک کر دیے شیطان مختلف وہ دنیاوی مشاغل کے فائدے اور مزے سمجھا کر ان کی جانب متوجہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تم کمزور ہو جاؤ گے فلاں چیز کھا لو گے تو درد و غم سے نجات مل جائے گی۔

حضرت آدم علیہ السلام سے بھی شیطان نے اسی طرح کی باتیں کی تھی شیطان انسان کے کان پکڑ کر حرص اور حرام کی جانب لے جاتا ہے شیطان شبہات اور وسواس کے ذریعے صحیح راستے کی جانب چلنے سے روک دیتا ہے شیطان اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے بڑے بڑے علماء کو مذاق بنوا دیتا ہے۔

وجہ بیان

مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشرک مہمان کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ابلیس اپنے اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے انسان کو ذلیل و رسوا کرنے کے در پہ ہے ابلیس انسان کے کان پکڑ کر اسے حرص اور حرام کی جانب لے جاتا ہے اور شکوک و شبہات کے ذریعے اسے سیدھے راستہ پر چلنے سے روکتا ہے۔

اولیاء اللہ کی موت

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You cannot copy content of this page

Scroll to Top