حضور نبی کریم کا مکہ مکرمہ کو فتح کرنا حوب دنیا کے لیے نہ تھا
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ مکرمہ کو فتح کرنا حب دنیا کے لیے نہ تھا جس ذات بابرکت نے ساتوں آسمانوں کے خزانوں سے دل کی آنکھ بند کر لی جس کے دیدار کے لیے پورے اور روحیں ہر جانب جمع ہیں اور فرشتے راہ کی خاک پر گرتے پڑتے ہیں یوسف جیسےسینکڑوں جس کے مشتاق ہیں اس کو اپنے دوست کے سوا کسی کی پرواہ کب تھی۔
اللہ عزوجل کے جمال سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر بھرے ہوئے تھے کہ اس میں انبیاء علیہم السلام کو بھی دخل نہ تھا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میرے لیے ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب میرے رب کے سوا کسی کی میرے اندر کوئی گنجائش نہیں ہوتی صورت النجم میں بھی ارشاد باری تعالی ہوتا ہے کہ دیدار الہی کے وقت انہوں نے نظر ادھر سے ادھر نہ کی۔
جب زمین اور آسمانوں کے خزانے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں ایک تنکے کی مانند ہوئے تو پھر مکہ مکرمہ شام اور عراق کیا ہے کہ وہ اس کا اشتیاق ظاہر کرتے یہ گمان اور خیال کرنا صرف منافقین کا ہی ہو سکتا ہے کیونکہ وہ اپنے ہر اور بخل پر قیاس کرتے ہیں۔تم جب زرد رنگ کا چشمہ لگاؤ گے تو تمہیں سورج بھی زرد نظر آئے گا اپنے زرد شیشے کو توڑ ڈالو تاکہ گرد اور مرد کی شناخت کر سکو اس شہسوار کے چاروں جانب غبار اڑ رہا ہے تو نے غبار کو مرد حق سمجھ لیا ہے۔
شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کی گرد دیکھی اور بولا: کہ یہ مٹی کا بنا ہوا ہے جب تک تو معززین بارگاہ الہی کو بشیر سمجھتا رہا یہ سمجھ لے کہ یہ سمجھ شیطان کی میراث ہے اے سرکش اگر تو شیطان کی اولاد نہیں تو تجھے اس کتے کی میراث کیسے ملی۔
میں کتا نہیں ہوں اسد اللہ ہوں اور وہ اللہ کا شیر ہے جوبصورت پرستی سے چھوٹ جائے دنیا کا شیر سامان کی زیادتی تلاش کرتا ہے لیکن اللہ عزوجل کا شیر آزادی اور موت کی جستجو کرتا ہے چونکہ وہ موت میں سینکڑوں وجود دیکھتا ہے اس لیے پروانے کی مانند اپنے وجود کو جلا دیتا ہے موت کی تمنا سچوں کے گلے کا طوق ہے اسی لیے یہودی کا اسی سے امتحان لیا گیا ہے اور انہیں موت کی تمنا کرنے کے لیے کہا گیا تھا ایک یہودی نے بھی اس قدر ہمت نہ کی۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہودی زبان سے کہہ دیں تو دنیا میں ایک یہودی بھی نہ بچے۔
امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس جوان سے فرمایا کہ جب تو نے میرے منہ پر تھوکا تو نفس میں اشتعال پیدا ہوا اور ادھا جہاد اور ادھا میری نفسانی خواہش میں تقسیم ہو گیا لیکن اللہ عزوجل کے کام میں شرکت نہیں ہے تو مولا کی مملوک ہے تے میری مخلوق نہیں ہے اللہ عزوجل کے نقش کو اللہ عزوجل ہی کے حکم سے توڑ دے دوست کے شیشے پر دوست ہی کا پتھر ماراَمشرک نے جب حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ عنہ کی بات سنی تو اس کے دل میں ایک نور پیدا ہوا اس نے اپنے کفر سے توبہ کی اور بولا کہ میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو کچھ اور سمجھا تھا آپ رضی اللہ تعالی عنہ تو خدائی اخلاقی والی ترازو کے کاٹا ہے میں اب اس شمع کا غلام ہوں جس نے آپ کے چراغ کو روشن کیا اس طرح اس کے خاندان کے 50 آدمیوں نے کلمہ پڑھا اور اس کی بردباری کی تلوار سیکڑوں لشکروں کو فتح کرنے والی ہے۔
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں گزشتہ واقعات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ مکرمہ کو فتح کرنا حب دنیا کے لیے نہ تھا لہذا یہ قیاس کرنا کہ مسلمانوں نے لشکر کشی صرف مال و زر کے لیے کی جھوٹ پر مبنی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عزوجل نے تمام امور پر نگہبان بنایا ہے۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی کہ اگر آپ حکم دیں تو طائف کے پہاڑوں کو آپ کے لیے سونے کا بنا دیا جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فکر کر ترجیح دی اور فکر کو پسند کیا اور آپ دعا فرماتے تھے الہی میرا انجام مفلسوں اور مسکینوں کے ساتھ کرنا۔