حضور نبی کریم کا بچپن میں لاپتا ہونا
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہ جو کی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضائی ماں ہیں انہوں نے جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دودھ چھڑایا تو آپ کو حضرت عبدالمطلب کے سپرد کرنے کے لیے مکہ مکرمہ آئیں اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حرم کعبہ میں حطیم کے پاس لے گئی۔
حطیم کے پاس انہوں نے آواز سنی کی اے حطیم تجھ پر آج بہت مہربانی ہوئی کہ تجھ پر نور کی سخاوت ہوگی اور تو آج بالائی روحوں کی منزل بنے گا اس سے قبل حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شق صدر کا واقعہ پیش آچکا تھا اور وہ بہت خائف رہتی تھیں یہی وجہ تھی کی آپ رضی اللہ تعالی عنہا ہر وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتی رہتی تھی آپ نے جب یہ آواز سنی تو حیران ہوئی کہ اس وقت تو وہاں کوئی موجود نہیں ہے۔
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا اس آواز کی تلاش میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین پر بٹھا کر نکلیں ہر جانب سے بلند آوازیں ان کے کانوں میں سنائی دے رہی تھی لیکن آواز والا انہیں نظر نہیں ارہا تھا اپ حیران و پریشان واپس لوٹی تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ پر موجود نہ تھے آپ غم کی شدت سے نڈھال ہو گئی اور رونا شروع کر دیا کہ میرا یہ گوہر مجھ سے کون لے گیا۔
اہل مکہ نے کہا کہ ہمیں اس کا کچھ علم نہیں اور نہ ہی ہم جانتے ہیں کہ یہاں کوئی بچہ موجود تھا آپ نے جدائی کے غم میں اتنے آنسو بہائے کی دیگر لوگ بھی آپ کے غم میں شریک ہو گئے اور اس دوران ایک بوڑھا عربی لاٹھی ٹیکتا ہوا آیا اور اس شدت غم کی وجہ دریافت کی۔
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بتایا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دایا ہوں اور انہیں ان کے دادا کے سپرد کرنے آئی تھی حطیم میں مجھے عجیب و غریب آوازیں سنائی دی تو میں بچے کو چھوڑ کر ان آوازوں کے متعلق معلوم کرنے نکلی جب واپس آئی تو بچہ یہاں موجود نہیں ہے میں اس وجہ سے پریشان ہوں کہ اس طرح مجھ پر کیے گئے اعتماد کو ٹھیس پہنچ سکتا ہے۔
اس بوڑھے نے کہا کہ تم غم نہ کرو میں تمہیں اس کے پاس لے چلتا ہوں جو اس بچے کے متعلق ہمیں بتا دے گا۔
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہ راضی ہو گئیں اور وہ بوڑھا انہیں مکہ مکرمہ کے مشہور بت عزہ کے سامنے لے گیا اور کہنے لگا کہ ہم اپنے گم ہونے والوں کا علم اسی سے پاتے ہیں پھر بوڑھے نے اس بت کو سجدہ کیا اور کہا کہ اے عرب کے خدا ہم نے تیری وجہ سے بے شمار ہلاکتوں سے نجات پائی اور تیری مہربانیاں اہل عرب پر بے شمار ہیں اور تیرا حق ادا کرنا ہم اہل عرب پر لازم ہیں یہ اپنے گمشدہ بچے کے متعلق جاننا چاہتی ہے اور اس کا نام محمد ہے۔
اس بوڑھے نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا تو بت اوندھے منہ گر پڑا اور کہنے لگا کہ تو اس بچے کو کیوں تلاش کرتا ہے جس کی وجہ سے ہم ذلیل و رسوا ہوں گے جو واقعات بت پرستوں نے ہمارے ساتھ دیکھے ہیں وہ ختم ہو جائیں گے اور اس نام والے کی وجہ سے ہمارا یہ مرتبہ ختم ہو جائے گا اللہ کے لیے یہاں سے لے جاؤ اور کوئی انسان اگر اژدھے کہ دم کو مسئلے تو یہ خطرناک ہوتا ہے اب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آب و تاب کے سامنے ہماری شان مانند پڑ چکی بوڑھے نے جب اس بت کی بات سنی تو گھبرا کر اپنی لاٹھی پھینک دی اور کانپنے لگا۔
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جب بت کی باتیں سنی تو بولیں کہ اگرچہ اس وقت میں مصیبت میں مبتلا ہوں اور میں حیران ہوتی ہوں کہ مجھ سے ہوائیں باتیں کرتی ہیں کبھی پتھر مجھے ادب سکھاتے ہیں کبھی اس بچے کو غیب سے کچھ لوگ اٹھا کر لے جاتے ہیں میں کس کے سامنے فریاد کروں میں پریشان ہو گئی ہوں میں ان معاملات کو جو میرے ساتھ پیش ائے انہیں راز رکھنا چاہتی ہوں میں بس اتنا کہتی ہوں کہ میرا بچہ گم ہو گیا ہے اور میں اس کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتی اگرچہ لوگ مجھے پاگل ہی کیوں نہ سمجھیں۔
بوڑھا بولا کہ اے حلیمہ تو اس کی جانب سے فکر مند نہ ہو وہ گم نہیں ہوگا بلکہ ایک عالم اس کی عظمت میں گم ہو جائے گا تو نے دیکھا نہیں کیا عظیم بدھ بھی تیرے بچے کے نام سے کہ آگے سرنگوں ہو گیا میں نے اپنی زندگی میں اس سے عجیب واقعہ نہیں دیکھا ان کی رسالت کو تسلیم نہ کرنے والوں کا انجام برا ہوگا اور جب بتوں کا یہ حال ہے تو ان کے پجاریوں کا کیا حال ہوگا۔
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہ کے رونے کی آواز حضرت عبدالمطلب نے بھی سن لی اور وہ فورا سمجھ گئے کہ یہ کیا ماجرہ ہے۔
حضرت عبدالمطلب بھی شدت غم سے نڈھال کعبہ کے دروازے پر آئے اور کہا کہ مجھ میں ایسی کوئی خوبی نہیں کی میرا ہمراز بنو میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر تیری مہربانی کے اثار دیکھے ہیں اگرچہ وہ ہم میں سے ہی ہیں لیکن یہ اثار ہم میں سے کسی کے اندر پیدا نہیں ہوئے ان کو بچپن سے ہی جو فضیلت عطا ہوئی ہو وہ کسی کو سو سال کی عبادت کے بعد بھی عطا نہیں ہوتی میں ان کو سفارشی بناتا ہوں اور ان کے طفیل ان کے حالات سے اگاہی چاہتا ہوں کہ وہ کہاں ہیں۔
حضرت عبدالمطلب کو کعبہ کے اندر سے جواب آیا کہ تم عنقریب ان کا چہرہ دیکھ لو گے وہ دو سو فرشتوں کی جماعت کے ہمراہ ہمارے پاس محفوظ ہیں ہم ان کے ظہور کو عالم میں مشہور کر دیں گے اور باطن کو سب سے پوشیدہ رکھیں گے پانی اور مٹی سے اللہ نے جو مخلوق بنائی ہے اس کے مختلف مراتب ہیں کبھی اس سے ہم نے شاہ پیدا کر دیے اور کبھی اس سے عاشق پیدا کر دیے۔
اس خاک سے لاکھوں عاشق اور معشوق پیدا کیے جاتے ہیں جو عشق کی وجہ سے نالہ و فریاد میں مصروف رہتے ہیں ہمارے یہ کارنامے منکروں کے انکار کے باوجود جاری و ساری ہیں مٹی کو یہ فضیلت اس کی فروتی کی وجہ سے عطا کی گئی ہے کہ اس طرح کے لوگ پیدا ہوتے ہیں زمین کا ظاہر غبار الود ہے لیکن اس کا باطن پر انوار ہے جس سے لال و گل رونما ہوتے ہیں۔
زمین کا ظاہر پتھر لیکن اس کا باطن موتی ہے اس کی ظاہری صورت باطنی خصوصیات کو چھپائے ہوئے ہیں اور منکر ہے لیکن اس کا باطن کمالات سے بھرپور ہے ظاہر اور باطن کی جنگ جاری ہے کبھی ظاہر غلبہ پاتا ہے اور کبھی باطن غالب آجاتا ہے۔
بد صورت مٹی سے حسین و جمیل مخلوق کا پیدا کرنا اس کے باطنی حسن کو ظاہر کرتا ہے زمین بظاہر روتی ہوئی صورت کی مانند ہے لیکن باطن میں مصرتیں پوشیدہ ہیں اللہ عزوجل جب چاہتا ہے چھپے ہوئے کو ظاہر کر دیتا ہے اللہ عزوجل آزمائش میں مبتلا کر کے انسانوں کے باطنی خوبیوں کو نکھارتا ہے۔
زمین نے بے شمار باکمال فرزند پیدا کیے لیکن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی بھی پیدا نہیں کر سکی زمین اور آسمان کے ملاپ سے جب آپ کا ظہور ہوا تو دونوں نے خوشی کا اظہار کیا آپ کی پیدائش نے زمین کو عروج عطا کیا کیوں کی اس کے ظاہر اور باطن اللہ عزوجل کے لیے جنگ کر رہے ہیں اور جس کے ظاہر اور باطن میں اللہ عزوجل کے لیے باہمی جنگ ہو اس کی روح پر نور ہوتی ہے اور اس کے نور کو زوال نہیں ہوتا۔
حضرت عبدالمطلب نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دریافت کیا تو انہیں آواز آئے کہ غم نہ کریں وہ فلاں میدان میں فلاں درخت کے نیچے ہیں حضرت عبدالمطلب قریش کے سرداروں کو لے کر آپ کی تلاش میں نکلے۔
الخلائق پیدا کیے گئے اور اللہ عزوجل کی جانب سے تو معمولی انعام بھی صورت سے بڑھ کر ہوتا ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام ابا و اجداد حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک سردار ہوئے تھے لیکن آپ کے ذاتی فضائل کے مقابلے میں نسبتی فضائل ہیچ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل جو ہر نسب سے بے نیاز ہے آپ خیر الخلائق پیدا کیے گئے اور اللہ عزوجل کی جانب سے تو معمولی انعام بھی صورت سے بڑھ کر ہوتا ہے
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن میں لاپتا ہونے کے واقعے کو بیان کر رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گمشدگی پر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا پریشان ہو گئیں تو انہیں ایک بوڑھا بتوں کے پاس لے گیا اور پھر جب اس بوڑھے نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر ان بتوں سے دریافت کیا تو ان بتوں نے کہا کہ وہ ہمیں رسوا کرنے ائے ہیں۔
اور تو ان سے ہمارے متعلق دریافت کرتا ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت یہ کائنات تخلیق کی گئی ہے اور آپ کی امد ہمارے لیے باعث فخر ہے اور آپ خیر الحق ہیں۔