حکمرانوں کا اولین فرض
ایک بادشاہ معمولی کپڑے کی قبا زیب تن کرتا تھا ایک دن اس کے ایک درباری نے کہا! کہ حضور آپ خزانوں کے مالک ہیں اور اتنی معمولی قبا زیب تن کرتے ہیں آپ کے لیے بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے لیے بہترین چینی ریشم کی قبا تیار کروائیں اور اسے زیب تن کریں اس بادشاہ نے جو کہ نہایت عاقل اور عادل تھا اس نے کہا! کہ میرے دل میں بھی یہ خواہش ہے کہ میں اپنے لیے ایک بہترین قبا تیار کرواؤں
مگر کیا کروں کہ یہ خزانہ میرا اپنا نہیں ہے بلکہ رعایہ کا ہے اور یہ ملک ان کی ملکیت ہے اس خزانے کا بہترین مصرف یہ ہے کہ میں اسے فوج پر خرچ کروں اور اسے مضبوط بناؤں تاکہ وہ رعایہ اور ان کے اس ملک کی حفاظت کرے۔
بادشاہ دہقان سے مالیہ یعنی ٹیکس اس لیے وصول نہیں کرتا کہ اسے ظالموں کے شر سے محفوظ نہ رکھے بلکہ اگر کسی ظالم نے اس کا گدھا چھین لیا ہے تو اس سے مالیہ وصول کرنا انصاف کے خلاف ہے
اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جو بادشاہ قیمتی قبائیں پہنتے ہیں اور عورتوں کی مانند اپنے جسم کو سجاتے ہیں وہ میدان جنگ میں دشمنوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔اور رعایہ بادشاہ کے لیے پھل دار درخت کی مانند ہے کہ اس کی پرورش اور نگہداشت بادشاہ کا فرض اولین ہےاگر وہ اس درخت کی جڑ پر کلہاڑا چلائے گا تو سائے اور پھلوں سے محروم ہو جائے گا اسے زیادہ بزدل اور کمینہ کوئی اور نہیں جو کی چیونٹی کے آگے سے دانہ اٹھائے شجاعت و بہادری کی قسم پوری دنیا کی حکومت بھی اس قابل نہیں ہے کہ اس کے لیے کسی کا خون ناحق بہایا جائے۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ شکایت میں ایک بادشاہ کا قصہ بیان کرتے ہیں جو کہ معمولی قباء پہنے تھا اس کے درباریوں نے بادشاہ سے کہا! کہ وہ قیمتی قبا پہنیں تو بادشاہ نے ان سے کہا کہ یہ خزانہ عوام کا ہے اور میری ملکیت نہیں ہے۔
بس یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ عزوجل نے جن لوگوں کو منصب حکومت عطا کیا ہے انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عہدہ ان کے پاس ایک امانت ہے اور اس منصب کا حق اسی وقت ادا کر سکتے ہیں جب وہ عوام الناس کی فلاح و بہبود کا خیال رکھیں اور اپنے آرام کے بجائے ان کے آرام کو ترجیح دیں۔