حکم عدولی کرنے والے محروم رہتے ہیں
ایک بادشاہ نے اپنے مشیروں سے کہا کہ فلاں شخص کی تنخواہ دوگنی کر دو کیونکہ وہ کبھی شاہی دربار سے غیر حاضر نہیں ہوا اور ہر وقت میرے حکم کا منتظر رہتا ہے جبکہ باقی تمام لوگ شاہی دربار میں بھی کھیل تماشوں میں مشغول رہتے ہیں اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی برتتے ہیں ایک صاحب حال شخص نے جب بادشاہ کا یہ فرمان سنا تو ایک نعرہ مستانہ بلند کیا اور وجد میں آگیا۔
لوگوں نے اس شخص سے اس کی اس کیفیت کے متعلق دریافت کیا کہ اس میں ایسی کیا بات تھی کہ تم سن کر وجد میں آگئے۔
اس صاحب حال شخص نے کہا! کہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں بندوں کا حال بھی یہی ہے اور ہر ایک کا مقام مرتبہ الگ الگ ہے اگر بندہ کچھ دن بادشاہ کی خدمت میں رہے اور اپنے امور کی ادائیگی میں پابندی کا خیال رکھے تو بادشاہ اس پر اتنا مہربان ہو جاتا ہے تو اللہ عزوجل کی خلوص نیت کے ساتھ عبادت کرنے والوں پر اللہ عزوجل کیوں کر مہربان نہ ہوگا۔
پس حکم ماننا باعث رسوائی نہیں بلکہ عقلمندی کی دلیل ہے اور جو حکم عدولی کرتے ہیں وہ محروم رہتے ہیں جس کا نصیب اچھا ہو وہ کبھی حکم عدولی نہیں کرتا اور اپنے سر ادب سے چوکھٹ پر جھکائے رکھتا ہے۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ شکایت میں ایک بادشاہ کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ جس نے اپنے ایک مصاحب سے خوش ہو کر اس کی تنخواہ دوگنی کر دی ایک درویش نے جب اس بادشاہ کی بات سنی تو اس نے ایک نعرہ لگایا اور وجد میں آگیا لوگوں نے اس درویش سے اس کی کیفیت کے متعلق دریافت کیا تو اس نے کہا! کہ جب دنیا کا بادشاہ خوش ہو کر انعام و اکرام سے نواز سکتا ہے تو پھر اس بادشاہ حقیقی کا کیا جو تمام خزانوں کا مالک ہے اور تمام جہانوں کے کو پالنے والا ہے اگر کوئی اس کی عبادت خلوص کے ساتھ کرے دو وہ یقینا اسے انعام و اکرام سے نوازے گا اور حکم عدولی کرنے والے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔