حسد کرنے والے رسوا ہو گئے
ایک درویش جو جوانوں کی مانند تندرست اور توانا تھا اور اس کی پیشانی سے حکمت اور دانائی کا نور نظر آتا تھا اس حالت میں ایک بادشاہ کے پاس پہنچا کہ اس کے لباس میں جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے تھے بادشاہ دانا اور مردم شناس تھا اس نے درویش سے جب گفتگو کی تو جان گیا کہ یہ شخص اس کے لیے مفید ثابت ہوگا.
۔بادشاہ نے اس درویش کو اپنے رفقا میں شامل کر لیا درویش نے غسل کیا اور نیا لباس زیب تن کیا اور اپنی ذمہ داریوں میں مشغول ہو گیا اس درویش نے اپنی حکمت اور دانائی سے بادشاہ کے لیے ایسے مفید کام سرانجام دیا کہ بادشاہ نے اس سے خوش ہو کر اسے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کر دیا۔
بادشاہ کے دربار میں موجود پہلے سے دیگر وزیر اس سے حسد کرنے لگے اور وہ اس کوشش میں رہنے لگے کہ انہیں کسی طرح اس کی کوئی غلطی معلوم ہو اور وہ بادشاہ کو اس غلطی سے آگاہ کر کے اس سے اس کے عہدے سے معزول کروائیں وہ درویش نہایت عقلمند اور نیک فطرت تھا اس لیے اس کے کام میں عیب نکالنا ان کے لیے ممکن نہ ہوا۔
ایک عرصہ گزرنے کے بعد حاسدوں کو ایک ایسی بات کا علم ہو ہی گیا جسے وہ بادشاہ کو بتا کر اس سے بدزن کر سکتے تھے وہ بات یہ تھی کہ بادشاہ کے دو ایسے غلام جو بہت خوبصورت تھے اور بادشاہ انہیں بہت زیادہ عزیز رکھتا تھا ان کی دوستی اس درویش تھے ہو گئی یہ دونوں غلام بھی اس درویش کی صحبت کو پسند کرتے تھے اور اکثر فراغت کے لمحات میں اس درویش کے پاس چلے جاتے تھے درویش ان کے ساتھ نہایت نرمی سے پیش آتا اور انہیں عقل و فہم کی باتیں بتاتا تھا۔ان حاسدوں نے ان دونوں غلاموں کو اس درویش کے ساتھ دوستی کو غلط رنگ دیا اور بادشاہ کے سامنے ایک من گھڑت کہانی ان کے متعلق سنائی ان حاسدوں نے بادشاہ سے کہ!ا کہ وہ درویش بد چلن ہے اور بادشاہ کے ان خوبصورت غلاموں کو بہکا رہا ہے بادشاہ نے ان کی کسی بات پر یقین نہ کیا بلکہ اس نے الٹا ان حاسدوں کو برا بھلا کہا۔
کچھ دن گزرنے کے بعد ان حاسدوں کو اپنی بات سچ کرنے کا ایک اور موقع مل گیا اور ہوا یہ کہ وہ درویش کسی وجہ سے ایک غلام کی جانب دیکھا تو غلام اسے دیکھ کر مسکرا پڑا حاسد جو کہ ہر وقت اسی طاق میں رہتے تھے کہ کسی طرح درویش کو جھوٹا کریں.
انہوں نے بادشاہ کو یہ سب کچھ دکھا دیا بادشاہ ان حاسدوں کے جال میں پھنس گیا اور اس نے اس درویش کو سزا دینے کا فیصلہ کیا لیکن وہ غصے کی حالت میں بھی اسے یہ بات نہ بھولی کہ جب تک حقیقت کی پوری طرح علم نہ ہو جائے کسی کو سزا نہیں دینی چاہیے۔اس نے اس درویش کو اپنے پاس بلایا اور کہا! کہ میں تمہارے متعلق سمجھتا تھا کہ تم نیک اور قابل بھروسہ ہو میں نے تم پر اپنی سلطنت کے امور ظاہر کیا اور تمہیں وزیراعظم کے عہدے پر فائض کیا مجھے افسوس ہے کہ میرے تمہارے متعلق تمام اندازے غلط ثابت ہوئے اور تم اوارہ اور بدچلن نکلے پھر بادشاہ نے اس درویش کو اپنے غلام کے ساتھ نظریں ملانا اور اس کا اگے سے مسکرانا ان سب سے آگاہ کیا اور کہا کہ اب تو خود ہی فیصلہ کر کہ تجھے کیا سزا دی جائے۔
درویش نے جب بادشاہ کی بات سنی تو جان گیا کہ یہ سب حاسدوں کا کیا دھرا ہے اس نے نہایت معدب ہو کر بادشاہ سے کہا کہ اپ بادشاہ ہیں جو سزا مجھے دینا چاہیں مجھے منظور ہے لیکن اس بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور آپ کے غلاموں سے میرے تعلقات ایسے ہرگز نہیں جیسا کہ آپ کو بتایا گیا
میں بھی جوانی کے دنوں میں بہت خوبصورت تھا اور جب میں ان غلاموں کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی جوانی یاد آجاتی ہے اور میں اپنے ان خوشگوار دنوں کو یاد رکھنے کے لیے ان سے روابط رکھتا ہوں بادشاہ نے جب اس درویش کی یہ بات سنی تو اسے درست جانا اور اس کی تعریف اور اسے انعام و اکرام سے نوازا پھر بادشاہ نے ان حاسدوں کو بلایا اور انہیں ذلیل و رسوا کرنے کے بعد سزا بھی سنائی۔ اور اس طرح حسد کرنے والے رسوا ہو گئے.
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمت اللہ علیہ شکایت میں ایک درویش کا قصہ بیان کر رہے ہیں جس کے عمدہ اخلاق اور عقلمندی کی بدولت بادشاہ نے اسے اپنا رفیق بنا لیا اور پھر اسے وزیراعظم کے عہدے پر فائز کر دیا اس درویش کے حاسدوں نے بادشاہ کے کان بھرنے شروع کر دیے پھر ایک موقع پر انہوں نے اس درویش پر الزام لگایا کی اس کے بادشاہ کے دو غلاموں کے ساتھ روابط ہیں۔
بادشاہ نے درویش سے دریافت کیا تو اس نے کہا کہ میں ان سے روابط اس لیے رکھتا ہوں کہ انہیں دیکھ کر مجھے اپنی جوانی کے ایام یاد آتے ہیں بادشاہ نے اس درویش کیبات کو صحیح جانا اور ان حاسدوں کو سزا سنائی اور یوں حسد کرنے والے رسوا ہو گئے پس جاننا چاہیے کہ حکومت کرنے کی بہترین اصول یہی ہے کہ بغیر کسی تحقیق کے کسی کو سزا نہ دی جائے اور ملزم کو اس کی صفائی کا پورا موقع دیا جائے۔