حضرت عمر بن عبدالعزیز کا ایثار
حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ کی انگوٹھی میں ایک ایسا نگینہ جڑا ہوا تھا جس کی اصل قیمت کا اندازہ کوئی جوہری بھی نہیں کر سکتا تھا وہ نگینہ دریائے نور تھا اور رات کو دن میں بدل دیتا تھا ایک مرتبہ سخت قحط کی صورتحال ہو گئی اور لوگ بھوک سے مرنے لگے آپ نے جب حالات کی سنگینی کا مشاہدہ کیا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی انگوٹھی کے اس نگینے کو لوگوں کی مدد کے لیے فروخت کر دیا۔
اور اس کی جو قیمت ملی اس سے اناج خرید کر لوگوں میں تقسیم فرما دیا آپ کے رفقاء کو جب اس نگینے کی فروخت کا علم ہوا تو ان میں سے ایک نے آپ سے کہا: کہ ایسا بیش قیمت نگینہ آپ نے فروخت کر دیا؟آپ نے اس کی بات سن کر فرمایا: کہ مجھے بھی وہ نگینہ بے حد پسند تھا لیکن میں یہ کیسے گوارا کر لیتا کہ میری رعایا بھوک سے مر رہی ہو اور میں اتنا قیمتی نگینہ پہنے رکھوں کسی بھی حاکم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی رعایا کا خیال رکھے اور جب لوگوں کو تکلیف میں مبتلا دیکھے تو اپنا آرام بھول جائے یہ فرما کر آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی انکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ شکایت میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ کے ایثار کو بیان کر رہے ہیں کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی انگوٹھی میں جڑا بیش بہا نگینہ اس وقت فروخت کر دیا جب لوگ قحط سالی کا شکار تھے۔
بس حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی عوام کا اسی طرح خیال رکھیں کہ جس طرح وہ اپنی ذات کا خیال رکھتے ہیں اور عوام الناس کی فکر اور فلاح و بہبود کا کام کرنے والے ہی تاریخ میں زندہ رہتے ہیں۔