حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ موت کو عبدی زندگی سمجھتے تھے

حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ جو کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے جنگ کے زمانے میں ہمیشہ بغیر زرا کے جنگ میں شامل ہوتے تھے حالانکہ جوانی کے زمانے میں وہ ہمیشہ زرہ پہن کر ہی میدان جنگ میں اترے تھے۔

لوگوں نے عرض کی کہ اے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا آپ رضی اللہ عنہ اپنی جان کو ہلاکت میں کیوں ڈالتے ہیں جب آپ جوان تھے اس وقت آپ اپنی حفاظت کیا کرتے تھے اور آپ جانتے ہیں کہ تلوار یہ نہیں دیکھتی کہ اس کے قابل جوان ہیں یا بوڑھا؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی آپ کو قتل کر دیں۔

حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیضیاب ہونے سے قبل میں موت کو صرف موت ہی سمجھتا تھا مگر اب میں موت کو ابدی زندگی سمجھتا ہوں اور مجھے آخروی زندگی کے مقابلے میں یہ دنیاوی زندگی بالکل حقیر نظر آتی ہے اب میں عالم غیب کا میدان دیکھتا ہوں جس میں خیمہ در خیمہ اللہ عزوجل کے نور کے سپاہی مقیم ہیں۔

میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا شکر گزار ہوں جن کی وجہ سے مجھے علم غیب کے اسرار نظر آتے ہیں جو شخص شہادت اور موت کو باعث ہلاکت سمجھتا ہو اس کے لیے لا تلقو کا حکم ہے اور جو شخص شہادت اور موت کو اسرار غیبی کا کھلنا سمجھتا ہو اس کے لیے کا حکم ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ موت ایک نعمت کی جانب دعوت ہے اور ان لوگوں کے واسطے جو اسے اللہ عزوجل کی مہربانی سمجھتے ہیں۔

جو لوگ مصیبت کو موت سمجھتے ہیں ان کے لیے یہ بلا ہی ہے جو موت کو حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح محبوب سمجھتا ہو وہ اس پر جان قربان کر دیتا ہے موت ہر انسان کے ساتھ وہی معاملہ روا رکھتی ہے جس کی وہ موت سے توقع رکھتا ہے جو اسے دوست سمجھتا ہے اس کے ساتھ دوستوں کا معاملہ روا رکھتی ہے جو اسے دشمن سمجھتا ہے ان کے ساتھ دشمنوں کا معاملہ رکھتی ہے۔

موت کی مثال آئینہ کی سی ہے انسان جیسا خود ہے ویسا ہی اس کا آئینہ ہے اگر خود حسین ہے تو اس کا آئینہ بھی اس کے لیے حسین ہے اور اگر وہ خود کالا اور بھدا ہے تو آئینہ بھی کالا اور بھدا ہی ہوگا جو موت سے ڈرتا ہے تو دراصل وہ خود ہی سے ڈرتا ہے۔

اگر انسان خود بھیانک ہے تو اس کو موت بھی بھیانک نظر آئے گی موت کی اچھائی برائی خود انسان کی اندرونی اچھائی اور برائی کی مانند ہے اور جو اچھائی یا برائی انسان کو پیش اتی ہے وہ خود اس کے اپنی کاشت اور پرورش کرتا ہے۔حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ موت کو عبدی زندگی سمجھتے تھےانسان کے افعال کی جز اور سزا صورت کے اعتبار سے مشابہ نہیں ہوتی جیسے کام کی اجرت اور اس کا معاوضہ کبھی مشابہ نہیں ہوتا اگر انسان دنیا میں کسی برائی سے مہتمم ہوتا ہے تو وہ ضرور کسی مظلوم کی بدعا کا اثر ہوتا ہے جس پر اس نے ظلم کیا ہوتا ہے اگر تم کہو کہ میں نے تو کسی پر تہمت نہیں لگائی وہ مجھے سزا تہمت کی صورت میں کیوں ملی تو یہ تمہاری بھول ہے تم نے کوئی نہ کوئی دانہ گویا تھا جس کا پھل تمہیں ملا حالانکہ دانے اور پھل میں کوئی مشابہت نہیں ہوتی۔

انسان کے نطفہ سے جو بچہ پیدا ہوتا ہے وہ کبھی تو خدمت گار اور مددگار ہوتا ہے اور بھی سانپ کی مانند موزی ہوتا ہے اگر انسان کا نطفہ سانپ بن سکتا ہے تو لاٹھی سے سانپ بننے پر تم حیران کیوں ہوتے ہو؟

انسان کی عبادت کا ثمرہ جنت ہے اور جو نیک اعمال کرتے ہیں وہ اس پر کار بندر ہے کہ وہ پرندوں کی شکل میں جنت میں داخل ہوگا اور انسان جو نیک عمل کرتا ہے وہ اسے درختوں کی صورت میں جنت میں ملیں گے۔

عبادت کا ذوق شہد کی نہر اور عشق الہی کی مستی اور شوق شراب کی نہر بنے گا ان نہروں کے اسباب موجود ظاہری نہروں کے مشابہ نہیں ہیں یہ سب چیزیں اور ان کے اسباب جس طرح اب بندوں کے اختیار میں ہے جنت میں بھی ان کے اختیار میں ہوں گے جس طرح دنیا کی اشیاء سے انسان جلتا ہے اسی طرح دوزخ کی آگ بھی جلائے گی۔

انسان کی وہ باتیں جو دوسروں کے لیے زہر قاتل اور ان کے لیے بچھو اور سانپ کا کام کرتی ہیں وہی دوزخ کے سانپ اور بچھو بنیں گے انسان دنیا میں لوگوں کو دھوکہ دے کر اور پریشان کرتا ہے اسی طرح وہ دوزخ میں خود پریشان ہوگا۔

دوستوں سے جھوٹے وعدے کر کے ان کو انتظار کی تکلیف کے جھوٹے وعدے کر کے منتظر بناتا تھا اب خود انتظار کی تکلیف برداشت کرے گا انسان اپنے غصہ کی آگ کو دین کے نور سے بجھا سکتا ہے دین کے نور کے متعلق حدیث میں وارد ہے کہ مومن جب پل صراط سے گزرے تو دوزخ کہے گی اے مومن! تو مجھ پر جلدی سے گزر جا کہ تیرے نور سے میری اگ بجھ ہی جا رہی ہے۔

اے کامل مرشد! تیرے نور دین نے ہمارا غصہ کی آگ کو بجھا دیا اور اگر کوئی شخص اپنی بربادی سے غصہ کی آگ کو بجھانا چاہتا ہے تو وہ رات میں دفن ہو جائے گی اور کسی بھی وقت پر نمودار ہو جائے گی دین کے نور کو غصہ کی آگ کو بجھانے والا پانی سمجھو اور اگر وہ مل جائے تو پھر آگ سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

پانی آگ بجھاتا ہے اسی لیے وہ آگ پانی کی پیداوار کو جلاتی ہے تو اپ اپنے آپ کو اہل اللہ کے پاس لے جاؤ جو کہ پورے کے پورے نور میں غرق ہو چکے ہیں یہ بات جان لو کہ حقیقی اہل اللہ اور بناوٹی بظاہر تو ایک ہی جیسے نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت دونوں متضاد ہیں اگر ایک پانی ہے تو دوسرا تیل جو آگ کو بھڑکاتا ہے۔

حقیقی شیخ اور بناوٹی شیخ میں بہت فرق ہوتا ہے ان کی مثال الہام اور وسوسہ کی سی ہے الہام اور وسوسہ دونوں دل کے بازار میں ا کر اپنے اپنے سامان کی تعریف کرتے ہیں تاکہ انسان ان کی جانب متوجہ ہو جائے اسی لیے کوئی بھی سودا کرتے وقت تین دن تک غور کر لیا کرو۔

حدیث کے الفاظ ہیں کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے حضور کی بارگاہ میں عرض کی کہ میں کاروبار کرتا ہوں اور اکثر معاملات میں دھوکہ کھا جاتا ہوں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ تم معاملہ کرتے وقت کہہ دیا کرو کہ مجھے تین دن کا اختیار ہے اور کوئی بھی معاملہ کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لیا کرو

حدیث شریف میں ہے کہ توقف کرنا اللہ عزوجل کی جانب سے ہے اور جلد بازی شیطان کی جانب سے ہے کتے کو بھی لقمہ ڈالو تو وہ اسے کھانے سے پہلے سونگھتا ہے اسی طرح ہمیں بھی عقل کے ذریعے پہلے بات کو پرکھ لینا چاہیے۔حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ موت کو عبدی زندگی سمجھتے تھےاللہ عزوجل کو یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ ایک لمحہ میں سیکنڈوں مکمل انسان پیدا کر سکتا ہے لیکن اس کا عمل بتدریج ہوتا ہےبہی یہی اور سبب کا بیج سورت میں یکساں ہوتے ہیں لیکن ان کا نتیجہ مختلف ہے۔

اس طرح انسانوں کے جسم اور صورتیں ایک جیسی ہیں لیکن ان کے اعمال کے نتائج روح پر مختلف مرتب ہوتے ہیں نیک اور بد کی موت تو بظاہر ایکسا نظر آتی ہے لیکن اس موت کے نتائج ہر شخص پر مختلف مراتب ہوتے ہیں۔

وجہ بیان

مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا بیان فرماتے ہیں کیوں اسلام قبول کرنے سے قبل آپ ذرا پہن کر میدان جنگ میں اترتے تھے پھر اسلام قبول کرنے کے بعد اپ نے ضلع پہننا چھوڑ دی جب آپ سے وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اب میں موت کو اپنی زندگی سمجھتا ہوں جب کہ پہلے ایسا کچھ معاملہ نہ تھا۔

 نیز اس حکایت میں انسانوں کو تحمل اور برد باری کا درس دیا گیا ہے کہ وہ اپنے کسی بھی فعل کو انجام دینے سے قبل اس نے اچھے اور برے پہلوؤں پر غور کر لیا کریں اللہ عزوجل نے انسان کی تخلیق کے لیے ایک عمل مقرر کیا ہے حالانکہ وہ چاہے تو ایک لمحہ میں کئی انسان پیدا کر سکتا ہے اللہ ذوال کی جانب سے تخلیق میں یہ اہستگی بھی تحمل اور برد باری کا درس دیتی ہے۔۔

جسم روح کے لیے خیمہ کی مانند قیام کی جگہ بن کر آیا ہے

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You cannot copy content of this page

Scroll to Top