حضرت سیدنا عمر فاروق اور ایک فقیر
مدینہ منورہ کی ایک تنگ گلی میں ایک فقیر بیٹھا کرتا تھا ایک دن امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا گزر اس گلی سے ہوا اور آپ کا پاؤں بے دھیانی میں اس فقیر کے اوپر اگیا۔
فقیر غصے میں چلایا: اے اندھے شخص! کیا تجھے نظر نہیں آتا؟ آپ نے اس کے غصے کو نظر انداز کرتے ہوئے نرمی سے جواب دیا کہ بھائی میں اندھا نہیں ہوں لیکن مجھ سے یہ غلطی ضرور ہوئی ہے کہ تم اللہ عزوجل کے واسطے مجھے معاف کر دو۔
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ سبحان اللہ ہمارے اسلاف کا اخلاق کس قدر اچھا تھا ان کے مقابلے میں کوئی کمزور بھی ہوتا تو ان کے لہجے کی حلاوت اور مٹھاس کی مزید بہتری پیدا ہو جاتی۔حقیقت یہ ہے کہ ہر بلند مرتبہ شخص عجز و انکساری کو پسند کرنے والا اور دوسروں کی دلجوئی کرنے والا ہوتا ہے اس شخص کی مثال اس درخت کی سی ہوتی ہے جس پر جتنا زیادہ پھل لگتا ہے وہ اتنا ہی جھکتا چلا جاتا ہے۔
لوگ کمزوروں کے ساتھ خوش اخلاقی اور عجزوا انکساری سے پیش آتے ہیں وہ روز محشر سب خوش قسمت ہوں گے اور مغروروں کو بروز محشر رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قصہ بیان کر رہے ہیں کہ مدینہ منورہ کے ایک گلی سے گزرتے ہوئے ان کا پاؤں بے دھیانی سے فقیر کے پاؤں پر آگیا تو اس فقیر نے آپ کو برا بھلا کہا آپ رضی اللہ عنہ اس کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس سے معافی مانگی۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طبیعت جلالی تھی مگر جب سے آپ رضی اللہ عنہ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے آپ کے لہجے میں مٹھاس اور حلاوت پیدا ہو گئی تھی اسی لیے اس فقیر کی کڑوی باتوں کو نظر انداز کر دیا نیز انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے سے کمتر کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش ائے اور عجز وہاں انکساری کا مظاہرہ کرے یہ حکایت حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عظمت کی دلیل ہے۔