حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آتش پرست
حضرت ابراہیم علیہ السلام اس وقت تک کھانا نہ کھاتے تھے جب تک ان کے ساتھ کھانے میں کوئی مہمان شامل نہ ہوتا ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک ہفتے تک کوئی مہمان آپ علیہ السلام کے گھر نہ آیا۔
آپ علیہ السلام مہمان کی تلاش میں خود بھی کئی مرتبہ گھر سے باہر تشریف لے گئے تاکہ اگر کوئی مسافر بھی مل جائے تو اسے اپنے گھر لے آئیں اور کھانے میں شریک کریں ایک ہفتے کے اس واقعے نے آپ علیہ السلام کو بھی بے حد کمزور کر دیا۔
بآلاخر آپ کو ایک ہفتے کے بعد ایک بیمار اور کمزور بوڑھا شخص مل گیا جو بھوک سے بے حال تھا آپ نے اسے کھانے کی دعوت دی تو وہ آپ کے ساتھ بخوشی گھر چلا آیا آپ نے اسے نہایت عزت و احترام کے ساتھ دسترخوان پر بٹھایا اور اس کے آگے کھانا رکھا۔
جب کھانا شروع ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حسب معمول بسم اللہ شریف پڑھی اور کھانا شروع کیا جبکہ اس بوڑھے نے بسم اللہ نہ پڑھی آپ نے حیرانگی سے اس بوڑھے سے دریافت کیا کہ تم نے کھانا شروع کرنے سے قبل بسم اللہ کیوں نہ پڑھی۔
اس نے کہا کہ میں مسلمان نہیں بلکہ اتش پرست ہوں آپ نے جب اس بوڑھے کا جواب سنا تو اسے دسترخوان سے اٹھا دیا اور دل میں افسوس کرنے لگے کہ میں نے ایک غیر مسلم کو اپنے دسترخوان پر بٹھایا اور اپنا مہمان بنایا۔اللہ عزوجل نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جانب وحی نازل کیا اور فرمایا کہ اے خلیل ہم جانتے ہیں کہ یہ ہمارے بجائے آگ کو اپنا رب جانتا ہے اور اسی کے اگے سر جھکاتا ہے لیکن ہم نے اس کے باوجود اسے 100 سال سے رزق پہنچا رہے ہیں تو اس کی بات سن کر اسے ایک وقت کا کھانا بھی نہ کھلا سکا اور اسے اپنے دسترخوان سے اٹھا دیا۔
وجہ بیان
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عادت کریمہ کا بیان کر رہے ہیں کہ آپ اس وقت تک کھانا نہ کھاتے جب تک دسترخوان پر کوئی مہمان موجود نہ ہوتا ایک مرتبہ آپ کو کئی دن مہمان کے انتظار کی وجہ سے فاق کرنے پڑے پھر ایک اتش پرست آپ کا مہمان ہوا۔
آپ کو علم ہوا کہ وہ آتش پرست ہے تو آپ کو افسوس ہوا اللہ عزوجل نے آپ کی جانب وہی فرمائی کہ میں مسلمان اور کافر کی تفریق کے بغیر رزق پہنچاتا ہوں اور تم ایک اتش پرست کو کھانا کھلانے میں عار محسوس کرتے ہو بس یاد رکھو کہ نیکی تک کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہے اور نیک کام کا اجر اللہ عزوجل کی جانب سے ہے۔