حضرت آدم علیہ السلام اور شیطان
خدا تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کا جسم مبارک تیار کیا تو فرشتوں نے ایک نئی شکل و صورت دیکھ کر تعجب کا اظہار کیا۔ اور آپ کی خوبصورتی دیکھ کر بھی خوش ہوئے۔ شیطان نے جو آپ کو دیکھا تو کہنے لگا بھلا یہ کیوں پیدا کیا گیا؟ پھر فرشتوں سے کہنے لگا۔ اگر خدا نے اسے ہم پر ترجیح دے دی تو تم کیا کرو گے؟ فرشتوں نے کہا ہم اپنے رب کا حکم مانیں گے شیطان نے اپنے جی میں کہا۔ بخدا اگر خدا نے اسے مجھ پر ترجیح دے دی تو میں ہرگز خدا کا حکم نہیں مانوں گا۔
بلکہ اسے ہلاک کر دوں گا پھر شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کے جسم اقدس پر تھوک دیا۔ جو آپ کے مقام ناف پر پڑا۔ خدا تعالی نے حضرت جبرائیل کو حکم دیا کہ اتنی جگہ سے مٹی نکال دو جبرائیل نے جہاں تھوک پڑی تھی۔ اس جگہ سے تھوک سمیت مٹی نکال دی۔ خدا نے اس مٹی سے کتا پیدا فرمایا کتے میں تین خصلتیں ہیں۔ اسے آدمی سے انس ہے۔ رات کو جاگتا ہے اور آدمی کو کاٹتا ہے آدمی سے اسے انس ہے۔ اس لیے کہ مٹی حضرت ادم علیہ السلام کی ہے۔ رات کو جاگتا اس لیے ہے کہ ہاتھ جبرائیل کے لگے ہیں اور آدمی کو کاٹتا اس لیے ہے کہ تھوک شیطان کا ہے۔
(روح البیان،ص48،ج1)
اللہ کے مقبولوں اور محبوبوں کا شیطان ہمیشہ سے دشمن چلا آیا ہے شیطان میں انا نیت و غرور بہت ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے سوا کسی اور میں بڑائی و عظمت تسلیم کی جائے۔ اسی اپنی انانیت کی وجہ سے وہ حضرت آدم علیہ السلام کا ولی دشمن بن گیا۔ اور آپ کے جسم اقدس پر تھوک کر اس نے بتا دیا کہ اللہ کے مقبولوں کے حق میں گستاخی و بے ادبی کرنا میرا شیوہ ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے جو کچھ بھی پیدا فرمایا ہے وہ مبنی بر حکمت ہے۔ ہمیں یوں ہرگز نہ کہنا چاہیے کہ۔ بھلا یہ کیوں پیدا کیا؟ بلکہ یوں کہنا چاہیے۔ اے رب ہمارے تو نے یہ بیکار نہ بنایا۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ خدائے تعالی کا حکم بلا چوں و چرا مان لینا فرشتوں کی سنت ہے اور اس کے حکم کو جبل حجت کر کے نہ ماننا شیطان کی خصلت ہے۔ لہذا ہمیں فرشتوں کی سنت کو اپنانا چاہیے نہ کہ شیطان کی خصلت کو