حضرت آدم علیہ السلام کا علم
ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ عزوجل نے علم الاسما عطا فرمایا جس کی ہر رگ میں لاکھوں علم ہے ہر شے کا نام اور اس کی حقیقت انہیں حاصل تھی جو نام کسی شے کو دیا وہ نہ بدلا کسی کو چست کہا تو وہ سست نہ ہوا جو آخر میں مومن ہے اسے شروع میں ہی پہچان لیا اور جو کافر ہوگا وہ بھی ان پر ظاہر ہو گیا جو آخرت پر نگاہ رکھے وہ مومن ہے اور جو چرا گاہ پر نظر رکھے وہ بے دین ہیں ہمارے نزدیک ہر شے کا نام اس کے ظاہر پر ہے اللہ عزوجل کے نزدیک اس کے باطن پر
حضرت موسی علیہ السلام کے نزدیک ایک لکڑی کا نام عصا تھا اور وہ اللہ عزوجل کے نزدیک ازدہا تھا اس فانی دنیا میں حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا نام بت پرست تھا مگر آخرت میں وہ مومن تھے
ہمارے نزدیک جس شے کا نام منی تھا اللہ عزوجل کے سامنے ایک پہاڑی کی صورت جیسے تو میرے سامنے ہے اصل میں یہ منی ایک صورت ہی تھی جو اصلی حالت میں اللہ عزوجل کے سامنے موجود تھی اس لیے ہمارا نام وہی حقیقت بنا جو اللہ عزوجل کے سامنے ہمارا انجام تھا انسان کا نام انجام کے اعتبار سے رکھا جاتا ہے نہ کہ اس پر جو چند روز کے لیے رکھتے ہیں
حضرت آدم علیہ السلام کی آنکھ نے نور پاک کے ذریعے دیکھا اور ہر شے کی حقیقت ان پر واضح ہو گئی جب فرشتوں نے اللہ عزوجل کے انوار کی تجلیات ان پر برسائیں تو سر بسجود ہو گئے اور خدمت کے لیے دوڑے جب فرشتوں نے ان سے اللہ زوجل کے نور کا مشاہدہ کیا تو سب سر بسجود ہو گئے
جس آدم علیہ السلام کا ذکر میں کر رہا ہوں اگر میں قیامت تک ان کی مدح سرائی بھی بیان کرنا چاہوں تو عاجز ہوں حضرت آدم علیہ السلام سب جان گئے لیکن جب قضا آئی تو ایک ممانعت کی سمجھ میں ان سے خطا ہو گئی
ممانعت حرام ہونے کی وجہ سے تھی یا کسی تاویل کی وجہ سے تھی اور انہیں وہم میں ڈالنا مقصود تھا جب تاویل ان کے دل پر قابض ہو گئی تو ممانعت وقتی تھی طبیعت حیرانگی میں گیہوں کی جانب دوڑ پڑی جب باغبان اپنے پیر میں چبھے ہوئے کانٹے نکالنے میں مصروف ہوا تو چور نے موقع پا لیا اور سامان لے کر بھاگ نکلا
جب انہیں حیرانگی سے نجات ملی اور راستے پر آئے تو سامان لے کر چور بھاگ چکا تھا پھر حضرت آدم علیہ السلام نے کہا اے ہمارے رب ہم نے ظلم کیا اور آہ کی یعنی اندھیرا چھا گیا اور راستہ گم ہو گیا
قضا سورج کو چھپا لینے والا ابر ہے اس سے شیر اور ازدہا چوہے کی مانند ہو جاتے ہیں ہدہد بولا کی اگر میں قضا کے وقت جال نہیں دیکھ سکتا تو میں تنہا ہی قضا کے راستے سے بے خبر نہیں مبارک باد کا مستحق ہے اور وہ شخص جو نیکی کرے زور کو چھوڑ دے اور راضی اختیار کرے اگر قضا تجھے ڈھانپ بھی لے تو آخر کار قضا ہی تیری دستگیری کرے گی اگر قضا سو بار بھی جان لینا چاہے تو قضا ہی اس کا علاج بھی کرے گی
اللہ عزوجل کی جانب سے مصائب کا نزول تنبیہ کے لیے ہوتا ہے یہ عین رحمت ہیں تاکہ ہمیں غفلت سے نجات حاصل ہو اور ہم بیدار ہو سکے ورنہ امن و سکون کی زندگی غفلت کا باعث بن جاتی
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ اللہ عزو جل نے حضرت آدم علیہ السلام کو علم الاسما عطا فرمایا اور ان پر تمام حقائق کو واضح کیا پھر جب قضا آئی تو انہوں نے ایک ممانعت کو سمجھنے میں خطا کر دی پھر جب وہ انہیں اس ممانعت کے متعلق علم ہوا تو انہوں نے بارگاہ الہی میں فریاد کی کہ اے اللہ ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا پس جب قضا اتی ہے تو پھر کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی
اللہ عزوجل کی جانب سے مصائب کا نزول بطور تنبیہ ہے اور یہ ہمارے لیے باعث رحمت ہے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی تخلیق کے مقصد کو پہچاننے اور تمام امور کو مناجانب اللہ عزوجل تصور کرے اگر انسان مصائب پر بجائے وہویلہ کرنے کے صبر کرے تو یہ اس کے لیے رحمت کے نزول کا سبب بنیں گے
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی مشکلات کو بیان کرنا