hatim waqai tarif ka haq rakhta hai

حاتم واقعی تعریف کا حق رکھتا ہے

ایک بادشاہ نے حاتم طائی کی شہرت سنی تو اس کے دل میں حاتم کے لیے حسد اور بغض پیدا ہو گیا اس نے سوچا کہ جب تک حاتم زندہ ہے مجھے عزت اور شہرت نہیں مل سکتی خواہ میں کتنے ہی بھلائی کا کام کیوں نہ کروں لوگ حاتم طائی کی ہی تعریف کرتے رہیں گے بادشاہ نے ایک چالاک اور لڑائی کے داؤ پیچ جاننے والے ایک شخص کو طلب کیا اور اسے حکم دیا کہ وہ حاتم کا سر کاٹ کر اس کے پاس لائے کرائے کا یہ قاتل اپنے سرکش کو تیروں سے بھر کر اور تلوار کو تیز کرنے کے بعد اس جگہ پہنچا جہاں حاتم طائی رہتا تھا۔

اس کرائے کے قاتل کی ملاقات وہاں ایک شخص طبع خوش اطوار اور خوش گفتار شخص سے ہوئی جب اس شخص کو معلوم ہوا کہ یہ شخص مسافر ہے تو وہ اسے اپنے گھر لے گیا اور اس کی خاطر تواضع کی وہ کرائے کا قاتل اس شخص کے اخلاق کا گرویدہ ہو گیا۔

اگلے دن جب وہ اس سے رخصت ہونے لگا تو اس نیک شخص نے کہا کہ میرے پاس کچھ دن رہو اور مجھے اپنی خدمت کا موقع دو اس کرائے کے قاتل کے دل میں اس شخص کے لیے عزت پیدا ہو چکی تھی اس نے شکریہ کے ساتھ کہا کہ میں کچھ دن مزید یہاں رکتا مگر مجھے ایک ایسا ضروری کام کرنا ہے جس کے لیے میں یہاں نہیں رک سکتا اس نے ایک شخص نے پوچھا کہ اگر تم مجھے بتانا گوارا کرو کہ تم کون سا ضروری کام کرنا چاہتے ہو تو ہو سکتا ہے کہ میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں۔

اس کرائے کے قاتل نے نہایت رازداری سے کہا کہ مجھے میرے بادشاہ نے حاتم طائی کا سر لانے بھیجا ہے میں حاتم طائی کا سر کاٹ کر بادشاہ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں اگر تم میری مدد کر سکو تو مجھے بتاؤ کہ حاتم طائی کہاں رہتا ہے۔
حاتم واقعی تعریف کا حق رکھتا ہےوہ نیک شخص اس کی بات سن کر مسکرایا اور کہا کہ میں ہی حاتم طائی ہوں تم شوق سے میرا سر کاٹ کر اپنے بادشاہ کی خدمت میں پیش کرو اگر تم نے یہ کام ابھی نہ کیا تو لوگ تمہیں ایسا کرنے نہیں دیں گے اور الٹا تمہیں نقصان پہنچائیں گے۔

حاتم طائی کی بات سن کر وہ شخص اسی وقت اس کے قدموں میں گر پڑا اور معافی مانگی اور کہا کہ میں نے ایک نیک شخص اور عظیم الشان سردار کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کیا پھر اس نے اپنی تلوار اور ترکش کے تیروں کو پھینک دیا اور کہا کہ وہاں سے چلا گیاکہ اتنے عظیم شخص کو بھول کر مارنا بھی مجھے گوارا نہیں جب وہ شخص بادشاہ کے پاس واپس پہنچا تو بادشاہ نے اس کی سرزنش کی پھر جب اس شخص نے حاتم کی نیکی اور اس کے احسان کا ذکر کیا تو بادشاہ کے دل سے حسد اور بغض جاتا رہا اور بادشاہ نے کہا کہ حاتم واقعی تعریف کا حق رکھتا ہے۔

وجہ بیان

ابھی میں حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں ایک بادشاہ کے بغض کا بیان فرما رہے ہیں کہ وہ حاتم طائی کی سخاوت کی بدولت اس سے بغض رکھتا تھا اور اس نے ایک کرائے کے قاتل کو اسے قتل کرنے کے لیے بھیجا وہ قاتل جب حاتم طائی سے ملا تو اس کے خلاف کا گرویدہ ہو گیا پس جس میں احسان اور سلوک حسن کا مادہ موجود ہوگا اس کے دشمن بھی اس کے دوست بن جائیں گے اس سے پتہ یہ چلتا ہے کہ حاتم واقعی تعریف کا حق رکھتا ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام کا علم

اپنے دوستوں کے ساتھ شئر کریں

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔