حق تعالی کی عطا کے لیے قابلیت شرط نہیں
حق تعالی کی عطا کے لیے قابلیت شرط نہیں ہے جب عطا ہوتی ہے تو قابلیت بھی خود بخود پیدا ہو جاتی ہے اتا عطا اللہ عزوجل کی صفت ہے جو قدیم ہے قابلیت بندے کی صفت ہے جو حادث ہے قدیم کے لیے حادث شرط نہیں بن سکتا وہ دل جو پتھر سے بھی زیادہ سخت ہے اس کی اصلاح کی تدبیر یہی ہے کہ اللہ عزوجل اس کی تبدیلی پیدا کر دے اللہ عزوجل جب چاہتا ہے پھر جیسے دل کو تبدیل کر کے اس قبول کرنے کی صلاحیت عطا فرما دیتا ہے۔
اللہ عزوجل کی جانب سے جو فیض اور عطا ملتی ہے اس کی دو اقسام ہیں اول فیض اقسام اور دوم فیض مقدس فیض اقدس وہ فیض ہے جس میں استعداد شرط نہیں اور فیض مقدس وہ فیض ہے جو ارواح کی جانب سے آتا ہے اور یہ قابلیت کی بنا پر اور استعداد کے مطابق ملتا ہے حضرت موسی علیہ السلام کی لاٹھی اور ید بیضائے فیض اقدس کی مثالیں ہیں اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے معجزات اسی کی مثل ہیں جس میں استعداد شرط نہیں ہے اگر ہر شے میں استعداد اور قابلیت شرط ہوتی تو پھر کوئی معدوم وجود میں نہ آئے اور جو معدوم ہیں اس میں استعداد کی قابلیت کیسے ہو سکتی ہے۔
عام طور پر سنت الہی یہی ہے کہ ہر چیز کے اسباب مہیا ہوں اور قابلیت ہو تو عطا ہوتی ہے معجزے یعنی فیض اقدس محض مشیت الہی سے ظہور میں آتے ہیں ویسے تو عزت اسباب سے حاصل ہوتی ہے لیکن اللہ کی قدرت میں ہے کہ وہ بلا سبب بھی عزت عطا فرما دے عوام کو اسباب ضرور اختیار کرنے چاہیے لیکن مسبب الاسباب سے غافل بھی نہیں ہونا چاہیے اللہ عزوجل کی قدرت اسباب کی محتاج نہیں عوام اپنے مقاصد کی تلاش کے لیے اسباب کی مدد لیتے ہیں۔
عوام سے اسباب کو قدرت کے لیے حجاب بنا لیا ہے کیونکہ ہر شخص بلاواسطہ قدرت کے مشاہدے کا اہل نہیں ہو سکتا انسان کو چاہیے کہ وہ نظر اپنائے جو اسباب کو چاک کر کے اصل قدرت کا مشاہدہ کروا سکے جب وہ ایسا کرے گا تو پھر اس کی نظر میں اسباب بے حقیقت ہو جائیں گے۔
یاد رکھو کہ ہر خیر و شر اللہ عزوجل کی جانب سے ہی ہے اور اسباب محض خیالی چیزیں ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ انسان پر کچھ عرصہ غفلت کا گزرے اور غیب پر ایمان کے فضائل حاصل ہو سکیں۔
وجہ بیان
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ حق تعالی کی عطا کے لیے قابلیت شرط نہیں ہے جب عطا ہوتی ہے تو قابلیت بھی پیدا ہو جاتی ہے غیب پر ایمان رکھنا لازم ہے اور انسان کو یقین ہونا چاہیے کہ ہر شے مناجانب اللہ ہے اور کسی بھی امر کا وقوع پذیر ہونا اس کی منشا پر مبنی ہے خیر اور شر اللہ عزوجل کا مالک بھی اللہ عزوجل ہے۔
حضرت سیدنا علی المرتضی کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت